مقبوضہ بیت المقدس کو صہیونی ریاست کا دارالحکومت قرار دینا اور امریکی سفارت خانہ القدس منتقل کرنے کا اعلان صہیونی ریاست اور اس کے جدتی پشتی پشت پناہ امریکا اور نام نہاد صہیونی ریاست کے درمیان تعلقات کے نئے موڑ کا آغاز نہیں بلکہ ماضی اور حال میں ہونے والے واقعات کا تسلسل ہے۔
فلسطین میں اسرائیلی ریاست کےغیرقانونی اورناجائز قیام سے لےکر آج تک القدس امریکا اور اسرائیل کے درمیان محوری اور مرکز رہا ہے۔
سنہ 1948ء میں نام نہاد صہیونی ریاست کے قیام کے بعد امریکا نے اسرائیل کو فوری طور پرتسلیم کیا مگر سنہ 1950ء کے بعد القدس اگرچہ امریکیوں کا موضوع رہا ہے مگر ہے۔ 23 اکتوبر 1995ء میں امریکی کانگریس نے القدس کو اسرائیلی ریاست کا دارالحکومت قرار دینے کے لیے ایک بل منظور کیا۔ اس قانون کا مقصد امریکی سفارت خانے کی تل ابیب سے القدس منتقلی کے لیے فنڈنگ شروع کرنا تھا۔ یہ سلسلہ 31 مئی 1999ء تک جاری رہا۔
سابق امریکی صدر بل کلنٹن اور ان کے دیگر جان نشین تل ابیب سے امریکی سفارت خانے کی القدس منتقلی کا فیصلہ نہیں کرسکے۔ کلنٹن اور دیگر صدور ہر چھ ماہ کےلیے سفارت خانے کی منتقلی ملتوی کرتے رہے ہیں اور اسے امریکا کے وسیع تر قومی سلامتی کے مفاد میں سمجھا جاتا رہا ہے۔
سنہ 1980ء میں سلامتی کونسل میں ایک قرارداد پیش کی گئی۔ یہ قرارداد 478 کہلائی جس میں 14 ملکوں نے القدس کواسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے کی مخالفت کی اور القدس کو اسرائیلی ریاست کا دارالحکومت قراردینے کو عالمی قوانین کے منافی قراردیا۔ امریکا نے اس قرارداد کو ویٹو نہیں کیا تاہم رائے شماری میں بھی حصہ نہیں لیا، اس کے نتیجے میں قرارداد منظور ہوگئی۔
انیس جنوری 1989ء کو اس وقت کے امریکی صدر رونلڈ ریگن اسرائیل کے ساتھ ایک معاہدہ کیا۔ اس معاہدے کے تحت مغربی بیت المقدس کے 231000 مربع کلو میٹر کا علاقہ سالانہ ایک ڈالر میں 99 سال کی لیز پر دے دیا۔
سات مارچ 1997ء مشرقی بیت المقدس میں جبل ابوغنیم کے مقام پر یہودی کالونیوں کے لیے اراضی پرغاصبانہ قبضے کے خلاف ایک قرارداد پیش کی گئی۔ امریکا نے اس قرارداد کو ویٹو کردیا۔
اگست 2000ء میں ایہود باراک ۔ بل کلنٹن پروگرام منظور کیا گیا۔ اس کے تحت بیت المقدس میں عرب عیسائی اور اسلامی کالونیوں کو فلسطینی اتھارٹی کی عمل داری میں دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ سنہ 1967ء کی جنگ میں قبضے میں لیے گئے ان علاقوں پر فلسطینیوں کو صرف انتظامی عمل داری کی اجازت دی گئی مگراس پر اسرائیل کی بالادستی کو تسلیم کیا گیا۔
بیت المقدس میں قلندیا کے مقام پر ہوائی اڈے کو اسرائیلی ریاست کی عمل داری میں رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اسی طرح غرب اردن اور القدس کےدرمیان گذرگاہوں کا کنٹرول اور حرم شریف پر صہیونی ریاست کی عمل داری برقرار رکھی گئی۔
فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ طے پائے معاہدے میں یاسرعرفات نے حرم شریف جن میں مسجد اقصیٰ اور قبۃ الصخرہ بھی شامل ہیں پر اسرائیلی بالا دستی کے ساتھ مشرقی اور مغربی بیت المقدس پر بھی صہیونی عمل داری کو قبول کیا گیا۔
پچیس ستمبر 2016ء کو انتخابی مہم کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے وعدہ کیا کہ وہ انتخابات میں کامیابی کے بعد متحدہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے کا اعلان کریں گے۔
26 ستمبر 2016ء کو انہوں نے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو سے ملاقات میں بھی ٹرمپ نے یقین دہانی کرائی کہ وہ امریکا کے صدر منتخب ہو کر القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیں گے کیونکہ 3 ہزار سال سے القدس یہودیوں کا ہے۔
تیس ستمبر2016ء کو وائیٹ ہاؤس نے القدس سے متصل ’اسرائیل‘ کا لفظ مٹا دیا۔ سابق صدر باراک اوبانا نے اسرائیلی صدر شعمون پیریز کے انتقال پر یہ اقدام اسرائیل کو تحفے میں دیا۔
اکتوبر 2016ء کو ڈونلڈ ٹرمپ نے فیس بک صفحے پر لکھا کہ میں متعدد مواقع پر کہہ چکا ہوں کہ میں اپنے عہد حکومت میں القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دوں گا، اسرائیل کے لیے یہ ایک حقیقت ہے اور اسے عمل میں لانا ہے۔
22 جنوری 2017ء کو امریکی انتظامیہ نے تل ابیب سے سفارت خانے کی القدس منتقل کرنے کی بحث شروع کی اور اس کے نتائج پر بحث مکمل کی گئی۔
چار اپریل 2017ء کو امریکی کانگریس نے ایک سرکاری وفد اسرائیل بھیجا تاکہ تل ابیب سے القدس سفارت خانے کی منتقلی کے عملی اور سیاسی پہلوؤں کا جائزہ لیا جاسکے۔
یکم جون 2017ء کو فلسطین۔ اسرائیل امن بات چیت کی بحالی کے لیے ایک اور موقع دینے کی خاطر سفارت خانے کی منتقلی موخر کردی، مگ 8 اکتوبر 2017ء کو ٹرمپ نے کہا کہ وہ مشرق وسطیٰ میں امن کا ایک اور موقع دینا چاہتے ہیں۔
28 نومبر 2017ء کو امریکی نائب صدر مائک بینس نے کہا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے پر غور کررہے ہیں۔ 30 نومبر 2017ء کو وائیٹ ہاؤس نے اعلان کیا کہ حکومت امریکی سفارت خانے کو القدس منتقل کرنے کی تیاری مکمل کرچکی ہے۔
چارد سمبر 2017ء کو وائیٹ ہاؤس کے ایک ترجمان نے کہا کہ القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے کا فیصلہ چند روز کے لیے موخر کردیا گیا ہے تاہم منگل کی شام کہا گیا صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عالمی رہ نماؤں سے ٹیلیفون پر بات چیت کی ہے اور ان سے کہا ہے کہ وہ القدس کے بارے میں اپنے وعدے کے مطابق عمل درآمد کی تیاری کرچکے ہیں اور اس کا اعلان کرنے والے ہیں۔ انہوں نے سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز، اردن کے شاہ عبداللہ دوم، فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس، مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی اور اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاھو سے ٹیلیفون پر بات چیت کی اور اپنے عزائم کے بارے میں انہیں آگاہ کیا۔