ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن نے منگل کے روز اعلان کیا ہے کہ بیت المقدس کا مسئلہ نہایت اہم ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ یہ تمام مسلمانوں کے لیے سُرخ لکیر کی حیثیت رکھتا ہے۔ دوسری جانب صہیونی ریاست نے ترک صدر کے اعلان پر سخت برہمی اور غم وغصے کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ ترک صدر کو القدس کے معاملے پر بولنے کا کوئی حق نہیں۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق ایردوآن کا مزید کہنا تھا کہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنا ایسا معاملہ ہے جس کا نتیجہ انقرہ کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع ہونے کی صورت میں نکل سکتا ہے۔
یاد رہے کہ وہائٹ ہاؤس نے پیر کی شام ایک اعلان میں کہا تھا کہ امریکی صدر نے امریکی سفارت خانے کو بیت المقدس منتقل کرنے اور بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے حوالے سے فیصلہ ملتوی کر دیا ہے۔ اسرائیل نے بیت المقدس بالخصوص اس کے مشرقی حصّے پر 1967 سے قبضہ کر رکھا ہے۔
ترک صدر کے بیان کے رد عمل میں اسرائیلی وزیرتعلیم نفتالی بینٹ نے کہا کہ ایردوآن نے اسرائیل پرحملے اور اسے رسوا کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کیا ہے مگر ہمارے لیے ایردوآن کی محبت سے القدس زیادہ بہتر ہے۔ انہیں اسرائیل سے تعلقات ختم کرنے کا شوق ہے تو وہ اپنا شوق پورا کرلیں مگر ہم القدس سے دست بردار نہیں ہوں گے۔
مسٹر بینٹ نے حکومت پر زور دیا کہ وہ اپنے اہداف جن میں القدس کو صہیونی ریاست کا دارالحکومت قرار دلوانا ہے ہرصورت میں حاصل کرے۔
اسرائیلی انٹیلی جنس وزیر یسرائیل کاٹز نے امریکا کی جانب سے القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کو ’منصفانہ‘ اور تاریخی اقدام قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اب دنیا کی کوئی طاقت اسرائیل کا القدس سے محروم نہیں رکھ سکتی۔
مسٹر کاٹز نے ترک صدر کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ترک صدر کی دھمکیوں کی کوئی حیثیت نہیں۔
اسرائیلی وزیر برائے ہاؤسنگ یواف گالانٹ نے کہ ترکی کے پاس اسرائیل کے خلاف دھمکیوں کے سوا اور کچھ نہیں بچا ہے۔