کل بدھ کو متوقع طور پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ مشرق وسطیٰ میں کے حوالے سے ایک ایسا اعلان کرنے کی تیاری کررہے ہیں۔ یہ اعلان جلتی پر تیل چھڑکنے اور پورے خطے میں ایک نیا طوفان اٹھا دینے کا موجب بن سکتا ہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق امریکی صدر کی جانب سے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیے جانے کی قیاس آرائیاں زوروں پر ہیں۔ اگر امریکی صدر القدس کو صہیونی ریاست کے دارالحکومت کا درجہ دینے کا اعلان کرتے ہیں تو وہ خطے میں بہت بڑی تباہی کا اعلان کرنے والے ہیں، کیونکہ ان کے اس اعلان سے پورے خطے میں کشیدگی کی ایک نئی آگ بھڑک اٹھے گی۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے متوقع طور پر بیت المقدس کو اسرائیلی ریاست کا دارالحکومت قرار دینے کا اعلان کرتے ہیں تو یہ اعلان پورے خطے بالخصوص قضیہ فلسطین ایک ڈرامائی تبدیلی کے نئے دور میں داخل ہوجائے گا۔ مشرق وسطیٰ جو پہلے ہی تباہ کن خانہ جنگیوں کا مرکز ہے کسی اور بڑی تباہی کا موجب بن سکتا ہے۔
نیا مرحلہ
فلسطینی تجزیہ نگار ھانی البسوس، احمد عوض اور صالح النعمامی نے مرکز اطلاعات فلسطین سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر امریکی صدر خدا نخواستہ القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر لیتے ہیں۔ اس سے یہ ثابت ہوجائے گا کہ امریکا مشرق وسطیٰ میں امن وامان کے قیام کے حوالے سے سچا نہیں۔ اس اعلان کے بعد قضیہ فلسطین سنہ 1967ء کی جنگ کے بعد ایک نئے اور انتہائی خطرناک دور میں داخل ہوجائے گا۔
ھانی البسوس کا کہنا ہے کہ بیت المقدس کو عبرانی ریاست کا دارالحکومت قرار دینا فلسطینیوں کے بنیادی حق کی سنگین پامالی اور اسرائیل کی مکمل طرف داری ہوگی۔ اس اقدام کے بعد پہلے سے مشکوک پالیسی کی وجہ سے بدنام امریکا کی مشرق وسطیٰ بالخصوص قضیہ فلسطین کے حل کے حوالے سے امریکیوں پر کوئی اعتبار نہیں کرے گا۔
صالح النعامی کا کہنا ہے کہ بیت المقدس کو اسرائیل کا صدر مقام قرار دینا اسرائیل کو سب کچھ دے دینا اور فلسطینیوں کو سب کچھ سے محروم کرنا ہوگا۔
فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس کے مشیر نبیل شعث نے فلسطینی ٹی وی کو دیئے گئے انٹرویو میں کہا کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ القدس کے بارے میں اپنے اعلان پر عمل درآمد کرتے ہیں تو اس کے نتیجے میں خطے میں امریکی مفادات کو بھی شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکی فیصلہ خطے میں ایک نئی آگ لگا دے گا۔ خطے میں امریکی شناخت اعتدال پسند ملک نہیں بلکہ ایک دشمن کے طور پر کی جائے گی جو صرف صہیونی ریاست کے مفادات کے لیے سوچتا ہے اور انسانی بنیادوں پر سوچنے سے عاری ہے۔
نئی انتفاضہ کا ظہور
تینوں فلسطینی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ القدس کے بارے میں ممکنہ امریکی اقدام کے نتیجے میں فلسطین میں ایک نئی تحریک انتفاضہ اٹھ کھڑی ہوگی۔ یہ انتفاضہ صرف فلسطین تک محدود نہیں ہوگی بلکہ اس کے اثرات عرب ممالک میں بھی دیکھے جائیں گے۔
تجزیہ نگار البسوس کا کہنا ہے کہ امریکی اقدام خطے میں نہ صرف ایک نئے انتفاضہ کا موجب بنے گا بلکہ امن مساعی کو تار تار کردے گا۔
تجزیہ نگار عوض کا کہنا ہے کہ بیت المقدس کو اسرائیل کا صدر مقام قرار دینے کا اعلان القدس کے حوالے سے سرخ لکیر کو عبور کرنا اور اس کے نتیجے میں امن کوششیں تباہ ہو کر رہ جائیں گی۔
مشکوک فیصلہ
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینا’جنون اور پاگل پن‘ ہوگا۔
تجزیہ نگار عوض کا کہنا ہے کہ امریکا نے آج تک ایسے کسی جنون کا سامنا نہیں کیا اگر امریکا ایسا کرتا ہے تو یہ تمام خطرات کو عبورکرنا اور سرخ لائن کو کراس کرنے کے مترادف ہوفا۔
امریکی صدر کے القدس کے بارے میں ممکنہ اعلان کے بارے میں اسرائیلی میڈیا میں گرما گرم بحث بھی جاری ہے۔ عبرانی ٹی وی 2 کے مطابق ٹرمپ کے بعض مشیران نے انہیں خبردار کیا ہے کہ القدس کو اسرائیلی ریاست کا دارالحکومت قرار دینے کے خطرناک نتائج سامنے آئیں گے۔ اس اقدام سے فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان کشمکش کی روک تھام کے تمام پرامن راستے بند ہوجائیں گے۔
تجزیہ نگار صالح النعامی کا کہنا ہے کہ القدس کے بارے میں ڈونلڈ ٹرمپ کے کسی غیرقانونی اعلان کے نتیجے میں خطے کے بڑے ممالک بالخصوص سعودی عرب، مصر اور اردن ایک نئی مشکل سے دوچار ہوں گے۔