گذشتہ چند ہفتوں کے دوران صہیونی دشمن نے اپنی روایتی دشمنی اور جنگی جنون کا مظاہرہ کرتےہوئے غزہ پر کئی حملے کیے ہیں۔ یہ حملے زمینی اور فضائی دونوں افواج کی طرف سے کیے گئے۔
پچھلے دنوں کی نسبت تازہ صہیونی جارحیت شدید اور زیادہ پرخطر ثابت ہوئی ہے۔ یہ جارحیت ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب فلسطینی دھڑے بالخصوص اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ اور تحریک فتح مصر کی زیرنگرانی ایک مصالحتی معاہدے پر متفق ہوئی ہیں۔ اس معاہدے کے بعد فلسطینی عوامی، سیاسی اور ابلاغی حلقوں میں فلسطینی مزاحمت کاروں کے اسلحہ اور مسلح جدو جہد بھی زیربحث ہے۔
بعض مبصرین کا کہنا ہےکہ صہیونی ریاست فلسطینیوں کے درمیان مصالحتی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کے لیے غزہ کی پٹی پر طاقت کا استعمال کررہی ہے۔
دو روز قبل غزہ کی پٹی میں چار مقامات پر اسرائیلی جنگی طیاروں اور ٹینکوں نے بم باری کی۔ جمعرات کے روز کی گئی ان کارروائیوں میں تین فلسطینی زخمی بھی ہوئے ہیں۔
فلسطین کی میدانی صورت حال پر نظر رکھنے والےمبصرین کا کہنا ہے کہ صہیونی ریاست فلسطینیوں کے ہر راکٹ کے جواب میں ’ڈیٹرینس‘ ظاہر کرنے کی پالیسی پر نہیں بلکہ فلسطینی مزاحمتی قوتوں کو بلیک میل کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ غزہ کی پٹی کی ناکہ بندی اور محصورین غزہ کو دی جانے والی اجتماعی سزا بھی صہیونی ریاست کی فلسطینی قوم بالخصوص اہالیان غزہ کو بلیک میل کرنے کی کوشش ہے۔
محاذ جنگ سے پیغام
غزہ کی پٹی کے شمالی علاقے بیت حانون پر فلسطینی مزاحمت کاروں کی ایک رصد گاہ پر بم باری کے دو گھنٹے کے بعد اسرائیلی فوج نے غزہ کی پٹی کے دیگر مقامات پر بھی فضائی اور زمینی حملے کیے۔ جمعرات کو صہیونی فوج نے مجموعی طور پرچار مقامات پر نشانہ بنایا۔
دفاعی امور کے ماہر ھشام المغاری نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ صہیونی ریاست یہ ظاہر کرنا چاہتی ہے کہ وہ فلسطینیوں کے ہر راکٹ حملے کے جواب میں زیادہ شدت اور طاقت کے ساتھ فلسطینیوں کو نشانہ بنائے گی۔
ان کا کہنا ہے کہ صہیونی فوج کی طرف سے ڈیٹرنس کے استعمال کے باوجود میدانی صورت حال میں زیادہ شدت اور کشیدگی کا امکان نہیں۔ فی الوقت دونوں فریقین اسرائیل اور فلسطینی مزاحمتی قوتیں محاذ جنگ پر اپنی موجودگی کو ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل غزہ کی صورت حال میں کشیدگی پیدا کرکے فلسطینی مصالحت کو سبوتاژ کرنا چاہتا ہے۔ یہ فلسطینی سیاسی قیادت کے لیے بھی ایک آزمائش ہے۔ فلسطینی قوم کی نمائندہ قوتوں کوکشیدگی کم کرنے کے سد ذرائع کے ساتھ متفقہ موقف اپنانا ہوگا۔
ڈیٹرنس پاور
اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ نے غزہ کی پٹی پر اسرائیلی ریاست کی تازہ جارحیت کی ذمہ داری صہیونی فوج پرعاید کی ہے۔ دوسری طرف اسرائیلی ٹی وی چنلوں پر نشر ہونے والی رپورٹس میں غزہ میں سرنگ پر حملے کے رد عمل میں اسلامی جہاد نے 10 سے12 راکٹ سرائیل پر فائر کیے ہیں۔ ایک اسرائیلی فوجی کا کہنا ہے کہ ہم نہیں سمجھتے کہ اسلامی جہاد کی طرف سے ردعمل ختم ہوگیا ہے۔
تجزیہ نگار المغاری کا کہنا ہے کہ صہیونی ریاست گذشتہ چار برسوں کے دوران طاقت کے توازن کو بحال کرنے کے لیے کوشاں ہے، کیونکہ سنہ 2006ء کی لبنان جنگ اور سنہ 2008ء اور 2014ء کی غزہ پر مسلط کی گئی جنگوں کے دوران صہیونی ریاست کو کافی نقصان پہنچا تھا۔
المغاری نے تمام فلسطینی قوتوں پر زور دیا ہے کہ وہ حکمت اور دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فلسطین اور اسرائیل دونوں کی موجودہ صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے اقدامات کریں۔
مفت کی جنگ بندی
عسکری تجزیہ نگار بریگیڈیئر یوسف شرقاوی کا کہنا ہے کہ صہیونی فوج غزہ کی پٹی پر آگ برسا کر فلسطینی مزاحمتی قوتوں کو بلیک میل کرنا چاہتا ہے۔ اسرائیل کی کوشش ہے کہ وہ فلسطینی مزاحمت کاروں پر اپنا خوف اور رعب بٹھا کر انہیں مفت کی جنگ بندی کو مزید طول دینے پر مجبور کرسکے۔
مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ غزہ کی پٹی میں سرنگ میں ایک درجن مجاھدین کی شہادت کےبعد صہیونی ریاست نے ہرقتل کا بدلہ پوری قوت سے لینے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
فلسطین کی آزادی پسند قوتوں کومرعوب کرنے کے لیے ان کے خلاف طاقت کا اندھا دھند استعمال کرتا رہا ہے۔