حال ہی میں امریکا نے اپنی روایتی اسرائیل نوازی کی تاریخ دہراتے ہوئے ایک بار پھر فلسطینی اتھارٹی کے سامنے دو آپشن رکھے۔ ان دو کے علاوہ اور کوئی تیسرا راستہ یا آپشن نہیں۔ امریکی حکومت نے فلسطینی اتھارٹی پر زور دیا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ بامقصد بات چیت کا آغاز کرے یا امریکی پابندیوں کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہوجائے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق فلسطینی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ امریکی حکومت نے ایک بار پھر قضیہ فلسطین کے کسی موثر اور ٹھوس حل کے بجائے فلسطینی انتظامیہ اور پی ایل او کو دباؤ میں لانے کی پالیسی اپنائی ہے۔ تازہ دھمکی آمیز بیان اس بات کا عکاس ہے کہ کسی واضح ویژن یا مسئلے کے حل پر توجہ دینے کے بجائے امریکا فلسطینی اتھارٹی پر دباؤ ڈال کراسرائیل کی مرضی کا فیصلہ کرانے کے لیے کوشاں ہیں۔
امریکی موقف میں یہ تبدیلی وائیٹ ہاؤس میں ڈونلڈ ٹرمپ کی آمد کے بعد ہوئی ہے۔ نئے امریکی صدرٹرمپ نے شروع ہی سے اسرائیل کو تھپکی اور فلسطینی اتھارٹی کو لاٹھی دکھانے کی پالیسی پر عمل پیرا رہے ہیں۔ پچھلے چند ہفتوں سےہم ’صدی کی ڈیل‘ کےنام سے ایک نئی اصطلاح سنتے آئے ہیں۔ یہ اصطلاح صدر ٹرمپ کی طرف سے مشہور کرائی گئی ہے۔ وہ 2018ء کے اوائل میں مشرق وسطیٰ میں ایک ڈیل کرنے کی تیاری کررہے ہیں۔
تاہم صدر ٹرمپ نے اس نام نہاد صدی کی ڈیل کا ویژن مبہم ہے۔ فلسطینی تجزیہ نگاروں طلال عوکل، ولید المدلل اور ھانی حبیب نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے اس امر سے اتفاق کیا ہے کہ تازہ امریکی دھمکی میں صدر ٹرمپ کی ’صدی کی ڈیل‘ کا حصہ ہے۔ وہ فلسطینیوں کو دباؤ میں لا کر اپنی اور اسرائیل کی مرضی کا فیصلہ کرانا چاہتے ہیں۔
مصالحت واحد حل
تینوں فلسطینی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ امریکی دھمکیوں کے بعد فلسطینیوں کے پاس قومی مصالحت کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا ہے۔ فلسطینیوں پر اسرائیل جتنا دباؤ ڈال رہا ہے یا انہیں بلیک میل کررہا ہے اس کے جواب میں فلسطینیوں کے پاس حقیقی مفاہمت کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں بچا۔
تجزیہ نگار ولید المدلل نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ امریکی صدر ’صدی کی ڈیل‘ نہیں بلکہ وہ ’صدی کا مذاق‘ کرنا چاہتے ہیں۔ امریکی بلیک میلنگ ، دھونس اور دباؤ کا جواب صرف یہ ہے کہ فلسطینی قوم اپنی صفوں میں اتحاد اور یگانگت کا مظاہرہ کرے۔
فلسطینی تجزیہ نگار حبیب کا کہنا ہے کہ امریکا اسرائیل کی زبان بول رہا ہے۔ امریکی حکومت کی طرف سے فلسطینیوں کو اسرائیل سے مذاکرات کےلیے دباؤ ڈالنا اور مذاکرات نہ کرنے پر امریکا میں تنظیم آزادی فلسطین کے مراکز بند کرنا امریکا کی فلسطینیوں کےاندرونی امور میں کھلی مداخلت ہے۔
فلسطینی اتھارٹی کے لیے آزمائش
فلسطینی تجزیہ نگار طلال عوکل کا کہنا ہے کہ امریکی انتظامیہ نے دو شرائط پیش کرکے فلسطینی اتھارٹی کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی پر لازم قرار دیا گیا ہے کہ وہ اسرائیل سے غیر مشروط مذاکرات شروع کرے۔ اسرائیلی جرائم کو عالمی اداروں میں بے نقاب کرنا چھوڑ دے ورنہ امریکا میں فلسطینی اتھارٹی اور پی ایل او کے دفاتر بند کردیے جائیں گے۔
تجزیہ نگار عوکل کا کہنا ہے امریکا کی طرف سے فلسطینی انتظامیہ پر دباؤ ڈالنا کوئی حیرت کی بات نہیں تاہم یہ مشکل ہے کہ فلسطینی اتھارٹی امریکی دباؤ میں آ کر اسرائیل کے ساتھ بے معنی اور مبہم مذاکرات کا سلسلہ شروع کر دے تاہم دوسرے فلسطینی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی میں امریکی دباؤ کا مقابلہ کرنے کا دم خم نہیں، فلسطینی اتھارٹی امریکی انتظامیہ کی طرف سے پیش کردہ ہرتجویز کو قبول کرنے کو تیار ہوگی۔
تجزیہ نگار المدلل نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی کی قیادت اسرائیل کا مقابلہ کرنے کے دعوے تو کرتی رہی ہے مگر عملا کوئی موثر اقدامات نہیں کر سکی۔ امریکی انتظامیہ کی طرف سے کسی بھی دھمکی کے جواب میں فلسطینی اتھارٹی کے جھکاؤ کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ماضی میں فلسطینی اتھارٹی متعدد بار اسرائیل سے سیکیورٹی تعاون ختم کرنے کی بات کرتی رہی ہے مگرعملی طورپر فلسطینی اتھارٹی اسرائیل سے سیکیورٹی تعاون جاری رکھے ہوئے ہے۔
تجزیہ نگار حبیب کا کہنا ہے کہ عرب ممالک میں جاری رسا کشی اور فلسطینیوں کے مطالبات اور قضیہ فلسطین کے حوالے سے نقصادن ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کا امریکی بلیک میلنگ کے جواب میں موقف بہت کم زور ہے۔ اس کم زوری کی ایک وجہ عرب ممالک کی طرف سے کوئی جرات مندانہ موقف نہیں اپنایا گیا۔
تجزیہ نگار عوکل کا کہنا ہے کہ ہرحال میں امریکا فلسطینی اتھارٹی کو بلیک کرنے کے لیے تمام حربے استعمال کرے گا تاکہ فلسطینی اتھارٹی امریکا اور اسرائیل کے پسندیدہ سیاسی ویژن کو قبول کرنے پ آمادہ ہوجائے۔