جمعه 15/نوامبر/2024

تنظیم آزادی فلسطین کے دفاتر کی بندش کی امریکی دھمکی مسترد

اتوار 19-نومبر-2017

تنظیم آزادی فلسطین نے امریکی دھمکیوں کا دوٹوک جواب دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگر واشنگٹن میں فلسطینی مشن بند کیا گیا تو امریکا سے ہرطرح کے رابطے ختم کردیے جائیں گے۔

مرکزاطلاعات فلسطین کے مطاباق پی اویل کے سیکرٹری جنرل صائب عریقات نے مائیکرو بلاگنگ ویب سائیٹ ’ٹوئٹر‘ پر پوسٹ کردہ ایک بیان میں کہا کہ تنظیم نے امریکا کو باضابطہ طورپر بتا دیا ہے کہ اگر ’پی ایل او‘ کے واشنگٹن میں مراکز بند کئے گئے دفاترکھولے جانے تک امریکی انتظامیہ سے تمام روابط معطل کردیے جائیں گے۔

خیال رہے کہ ا مریکا نے ہفتے کے روز اپنے ایک بیان میں دھمکی دی ہے کہ اگر تنظیم آزادی فلسطین [پی ایل او] نے اسرائیل کے ساتھ سنجیدہ مذاکرات کا آغاز نہیں کیا تو وہ امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں تنظیم کا دفتر بند کر دے گا۔

ایک امریکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کی جانب سے امریکی قانون کی خلاف ورزی کا ارتکاب کیا جا رہا ہے جو اس بات کی ضرورت پر زور دیتا ہے کہ اگر فلسطینیوں نے عالمی فوجداری عدالت کو اسرائیل کے خلاف عدالتی کارروائی پر مجبور کیا تو پی ایل او کے دفتر کی بندش عمل میں لائی جائے۔

ایجنسی نے وزارت خارجہ کے ایک ذریعے کے حوالے سے یہ بھی بتایا کہ فلسطینی صدر محمود عباس اس لائن کو اُس وقت پار کر چکے ہیں جب انہوں نے عالمی فوجداری عدالت سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل کی کارروائیوں کی تحقیقات اور اس کے خلاف قانونی کارروائی کرے۔

مذکورہ ذرائع کے مطابق صدر ٹرمپ کے پاس 90 دن کا وقت ہے جس میں وہ فیصلہ کریں گے کہ آیا فلسطین؛ اسرائیل کے ساتھ براہ راست اور با معنی مذاکرات میں شریک ہے یا نہیں۔ اگر امریکی صدر نے مثبت فیصلہ کیا تو پھر فلسطینی اپنے مشن کا دفتر برقرار رکھنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔

فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں بھی امریکی دھمکیوں کو مسترد کردیا گیا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہےکہ امریکا کی طرف سے یہ دھمکی ایک ایسے وقت میں دی گئی ہے جب بنجمن نیتن یاھو کی اسرائیلی حکومت فلسطین میں انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کی مرتکب ہو رہی ہے۔ بیت المقدس میں فلسطینی شہریوں کے گھرمسمار کیے جا رہے ہیں اور نہتے فلسطینیوں کو شہر سے بے دخل کیا جا رہا ہے۔ اسرائیلی ریاست کی نسل پرستانہ سرگرمیوں پر خاموشی اور فلسطینیوں پر دباؤ ڈالنے کی پالیسی کامیاب نہیں ہوسکتی۔

مختصر لنک:

کاپی