حال ہی میں فلسطینی اتھارٹی اور رام اللہ میں قائم فلسطینی حکومت کی لیڈر شپ کی طرف سے فلسطینی مزاحمت کاروں کوغیرمسلح کی ضرورت سے متعلق بیانات نے ایک نئی بحث پیدا کی ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کا کہنا ہے کہ فلسطینی قومی حکومت کو مستحکم کرنے کے لیے فلسطینی عسکری اور مزاحمتی تنظیموں کو اپنے عسکری ونگ غیر مسلح کرنا ہوں گی، ورنہ حالات ماضی کی طرف نہیں پلٹ سکتے۔
مگر مبصرین کا کہنا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی اور حکومت کی طرف سے اس طرح کے بیانات دراصل اسرائیل کی موجودہ موقع سے فائدہ اٹھانے کی خواہش سے مطابقت رکھتے ہیں۔ کیونکہ اسرائیل مختلف حیلوں اور بہانوں کی آڑ میں اپنے مذموم عزائم کے حصول کے لیے غزہ کی پٹی پر جنگ مسلط کرسکتا ہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق جن دنوں فلسطینی اتھارٹی اور رام اللہ حکومت کی طرف سے مزاحمتی گروپوں کو غیرمسلح کرنے کی ضرورت پر زور دیا جا رہا تھا انہی کے ساتھ ساتھ صہیونی دشمن کی طرف سے فلسطینیوں کے خلاف طاقت کے استعمال کی بزدلانہ دھمکیاں بھی مسلسل بڑھ رہی تھیں۔ اس کے ساتھ متوازی طور پر امریکا کا فلسطینیوں کے بارے میں موقف بھی مزید سخت اور صہیونی ریاست کے حوالے سے مزید نرم ہو رہا ہے۔ ایسے میں کیا اسرائیل غزہ کی پٹی پر ایک نئی جنگ مسلط کرنے کی تیاری کررہا ہے۔ کیا فلسطینی اتھارٹی اور موجودہ حکومت بھی اس جنگ کے لیے راہ ہموار کررہی ہے۔
فلسطینی تجزیہ نگاروں کی اس بارے میں کیا رائے ہے۔ اس حوالے سے مرکزاطلاعات فلسطین نے تجزیہ نگاروں سے بات چیت کی ہے جس کا خلاصہ چند اہم نکات میں پیش کیا جا رہا ہے۔
نئی جنگ
تجزیہ نگار ڈاکٹر کمال علاونہ نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حالات اور تمام امکانات ایک نئی جنگ کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ غزہ کی پٹی ایک عشرے میں چوتھی جنگ کے دھانے پر کھڑا ہے۔ عین ممکن ہے کہ رواں سال کے اختتام یا آئندہ سال کے شروع میں اسرائیل غزہ پر چڑھائی کردے۔ اس کے کئی داخلی، علاقائی اور عالمی اسباب ہیں۔
علاونہ نے کہا کہ اسرائیل کی موجودہ اندرونی صورت حال بھی جنگ کے لیے حوصلہ افزا ہے۔ نیتن یاھو اپنے خلاف عدالتوں میں جاری مقدمات سے توجہ ہٹانے کے لیے غزہ پر چڑھائی کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اسرائیل کی کوشش ہے کہ وہ فلسطینیوں کے درمیان مصالحت کو ناکام بنانے کے لیے طاقت کا استعمال کرے۔ دشمن یہی تجربہ سنہ2014ء کو بھی کرچکا ہے جب فلسطینیوں کے درمیان مصالحتی کوششیں شروع ہوئیں تو قابض دشمن نے غزہ پر حملہ کردیا تھا۔
علاونہ کا کہنا ہے کہ خطے کے حالات بھی جنگ کے لیے کسی حد تک ساز گار ہیں۔ صہیونی۔ امریکی گٹھ جوڑ کا ہدف تو فلسطینی مزاحمتی قوت پر کاری ضرب لگانا ہے ہی مگر بعض علاقائی قوتیں حماس پر ایران اور لبنانی ملیشیا حزب اللہ سے قربت کا الزام عاید کرکے صہیونی ریاست کو غزہ کے خلاف کسی نئی مہم جوئی کے لیے شہ دے رہی ہیں۔
فلسطینی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ شمالی فلسطین اور جزیرہ نما النقب میں اسرائیل کی بری، بحری اور فضائی مشقیں، غزہ کی پٹی کے اطراف میں مشقیں اسرائیل کی جنگ کی تیاریوں کی نشاندہی کرتی ہیں۔
ڈاکٹر کمال علاونہ کا کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی پر جنگ مسلط کیا جانا نوشتہ دیوار ہے۔ وہ جنگ جلد ہوگی یا اس میں ابھی کچھ دیر ہے مگر صہیونی دشمن نے فلسطینی مزاحمت کاروں کے خلاف ایک نئی مہم جوئی کرنے کا تہیہ کررکھا ہے۔ اسرائیل فلسطینی مزاحمتی قیادت بالخصوص حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ اور اسلامی جہاد کے القدس بریگیڈ کے مرکزی قائدین کو ختم کرنے کی پوری کوشش کررہا ہے۔
مسلسل بڑھتی کشیدگی
عوامی محاذ کے رہ نما اور تجزیہ نگار زاھر الششتری نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ خطے میں امریکی منصوبوں کی ناکامی کے بعد عرب خطہ ایک نئی کشیدگی کا مرکز ہے اور یہ کشیدگی مسلسل بڑھ رہی ہے۔
داعش کو شکست دینے کے بعد امریکا کا اگلا ہدف خطے کی دوسری مزاحمتی قوتوں کے خلاف مہم جوئی ہوسکتا ہے۔ حزب اللہ اور حماس کے خلاف امریکی مسلسل زہر اگل رہےہیں اور دونوں تنظیموں کو حماس کی پروردہ قرار دے کران کے خلاف قانون سازی اور پابندیاں لگائی جا رہی ہیں۔ سعودی عرب پہلے ایران کے ساتھ الجھا تھا اب لبنان اور سعودی عرب کے درمیان بھی کشیدگی موجود ہے۔
الششتری کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات اور تیزی سے بدلتی علاقائی صورت حال ایک نئی جنگ کی پیش گوئی کررہے ہیں۔
الششتری کے مطابق خطے میں ایک نئی جنگ بہت سے حلقوں کے مفاد میں ہے۔ امریکا، اسرائیل اور سعودی عرب بھی ایک محدود جنگ کے خواہاں ہیں۔ مگر ہمیں سب سے زیادہ خدشہ غزہ جنگ کا ہے۔ اگر اسلامی جہاد اپنے ارکان کی شہادت کا بدلہ لینے کے لیے کوئی انتقامی کارروائی کرتی ہے تو اس کے نتیجے میں غزہ پر جنگ مسلط کی جاسکتی ہے۔