فلسطینی تنظیم اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ نے نئی سیاسی دستاویزکے بعد علاقائی ممالک کے ساتھ تعلقات کا از سرنو جائزہ لیا ہے۔ حماس پڑوسی عرب ممالک کے ساتھ خوش گوار تعلقات کے قیام کے لیے عرب حکومتوں کے ساتھ رابطے بڑھا رہی ہے۔ حال ہی میں حماس اور فتح کے درمیان مصر کی ثالثی کے تحت طے پائے مصالحتی معاہدے کے بعد جماعت کے سیاسی ششعبے کے سربراہ اسماعیل ھنیہ نے عرب حکمرانوں جن میں اردن کے فرمانروا شاہ عبداللہ دوم بھی شامل تھے کے ساتھ رابطے کیے اور انہیں فلسطینی قومی مصالحت کے بارے میں تفصیلی طور پر آگاہ کیا۔
اسی ضمن میں مرکزاطلاعات فلسطین نے اُردنی تجزیہ نگار اور اخبار ’السبییل‘ کے چیف ایڈیٹر عاطف الجولانی سے بات چیت کی۔
مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتےہوئے الجولانی کا کہنا تھا کہ حماس نے اپنی پالیسی میں لچک دکھاتے ہوئے تمام علاقائی قوتوں کے ساتھ خوش گوار تعلقات استوار کرنے کی پالیسی اپنائی ہے۔ یہ حماس کی اسی لچک دار پالیسی کا نتیجہ ہے کی جماعت سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ھنیہ نے اردنی فرمانروا شاہ عبد اللہ دوم سے بھی ٹیلیفون پر رابطہ کیا ہے۔ یہ رابطے حماس کے عرب ممالک کے حوالے سے مثبت سمت میں تبدیل ہوتے حالات کی طرف اہم پیش رفت ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ حماس علاقائی قوتوں کے ساتھ کسی قسم کی الجھن میں پڑے بغیر سب کے ساتھ مثبت اور متوازی تعلقات کےقیام کی خواہاں ہے۔ حماس کی کوشش ہے کہ جماعت کسی ملک کے ساتھ تعلقات بگاڑنے کے بجائے سب کے ساتھ مل کر آگے بڑھے۔ کسی ملک کے ساتھ تعلقات استوار کرنا کسی کے ساتھ بگاڑ کی قیمت پر نہیں ہونے چاہئیں۔
ایک سوال کے جواب میں اردنی تجزیہ نگار کا کہنا تھا کہ حماس علاقائی قوتوں کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے لیے چھ اہم امور پرکام کررہی ہے۔ یہ وہ اہم نکات ہیں جن پر عمل درآمد سے قضیہ فلسطین مستحکم ہوگا اور حماس بھی آگے بڑھ سکے گی۔
عاطف الجولانی کے ساتھ ہونے والی بات چیت نکات کی شکل میں پیش خدمت ہے۔
اردن۔ حماس تعلقات
اردنی تجزیہ نگار سے پوچھا گیا کہ حماس ’مزاحمتی محور‘ کے ساتھ ساتھ کیا عرب ممالک کے ساتھ ماضی جیسے تعلقات کےقیام کی طرف بڑھ رہی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ حماس کی قیادت نے ایک طرف عرب قیادت کے ساتھ ٹیلیفون پر رابطوں کے ذریعے قربت پیدا کی ہے اور دوسری طرف حماس کے وفود عرب اور اسلامی ملکوں کےدوروں کے ذریعے بھی متوازن تعلقات کے قیام کے لیے کوشاں ہے۔
حال ہی میں حماس کے ایک اعلیٰ اختیارتی وفد نے ایران کا دورہ کیا۔ اس دورے کے دوران حماس کی قیادت نے واضح کیا کہ وہ ’مزاحمتی محور‘ سے باہر نہیں نکل رہی مگر اس کے ساتھ ساتھ جماعت تمام علاقائی قوتوں کے ساتھ یکساں دوستانہ مراسم کے فروغ کے لیے کوشاں ہے۔ حماس ایران کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانے کے ساتھ عرب ممالک کے بھی قریب ہو رہی ہے۔ جماعت کی پالیسی یہ ہے کہ کسی ایک ملک کے ساتھ تعلقات کا قیام کسی دوسرے کے ساتھ بگاڑ کی شکل میں نہیں ہونا چاہیے۔ یوں حماس متوازی اور متوازن انداز میں آگے بڑھ رہی ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا حماس مزاحمتی مدار میں چلنے والے ملکوں میں صرف ایران کے قریب ہو رہے ہیں یا لبنانی حزب اللہ کے ساتھ بھی اس کی قربت بڑھ رہی ہے؟
اس پرانہوں نے کہا کہ حماس اور حزب اللہ کے درمیان تعلقات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ حماس اور تہران کےدرمیان بعض معاملات میں سرد مہری کے باوجود حماس اور حزب اللہ کے باہمی تعلقات متاثر نہیں ہوئے۔ حماس اور حزب اللہ کے درمیان بعض شعبوں میں باہمی تعاون اور رابطے بھی قائم رہے ہیں اور مستقبل میں ان رابطوں میں مزید بہتری آنے کا بھی امکان موجود ہے۔
شام کے ساتھ تعلقات کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں اردنی تجزیہ نگار کا کہنا تھا کہ میرا خیال ہے کہ شام خود حماس کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی خواہش رکھتا ہے۔ حالانکہ دونوں کے درمیان گذشتہ کئی برس سے کوئی رابطہ نہیں۔ اسی طرح کی رغبت اور خواہش حماس کی بھی ہوسکتی ہے۔ حماس شام میں استحکام کے حوالے سے ہونے والی تمام مساعی کاخیر مقدم کرتی ہے اور تنازع کے پرامن ، سیاسی اور سفارتی حل کی خواہاں ہے۔
فلسطینی مصالحت پر اردن کی رائے
عاطف الجولانی نے کہا کہ بعض ذرائع ابلاغ یہ تاثر دے رہے ہیں کہ حماس اور فتح کے درمیان جس انداز میں مصالحتی معاہدہ طے پایا ہےاس پر اردن خوش نہیں۔ حالانکہ ایسا ہرگز نہیں۔ اردن بھی فلسطینی دھڑوں کے درمیان اتحاد کےحوالے سے سنجیدہ کوششیں کرچکا ہے اور اسے کامیاب بنانے کے لیے ہرممکن تعاون بھی کرے گا۔ اردن کے بارے میں یہ گمان کرنا کہ وہ فلسطینیوں میں مصالحت پر خوش نہیں تجاھل عارفانہ ہی ہوسکتا ہے۔
اردن چاہتا ہے کہ فلسطینی دھڑوں میں بٹ کر رہنے اور فلسطین کو اپنے اپنے جغرافیائی علاقوں میں تقسیم کرنے کے بجائے اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں۔ اردن کا قضیہ فلسطین کے حوالے سے موثر کردار رہا ہے۔ جب فلسطینی دھڑوں میں مصالحت کا اعلان کیا گیا تو اردنی حکومت نے سرکاری سطح پر اس کا خیر مقدم کیا اور قضیہ فلسطین کے حوالے سے مصالحت کو اہم پیش رفت قرار دیا۔
عاطف الجولانی کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں میں مصالحت ایک ایسے وقت میں عمل میں آئی ہے جب اردن اور اسرائیل کے درمیان بھی کشیدگی پائی جا رہی ہے۔ اردن فلسطینی مقدسات کے حوالے سے اردن کی سرپرستی ختم کرنے کی سازشوں میں سرگرم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نیتن یاھو حکومت قدم قدم پر اردن کو بدنام کرنے اور عمان کے خلاف اشتعال انگیز طرز عمل اختیار کیے ہوئے ہے۔ دو طرفہ کشیدگی میں اس وقت اور بھی اضافہ ہوگیا جب چند ماہ قبل عمان میں قائم اسرائیلی سفارت خانے کے ایک اہلکار نے دو اردنی شہریوں کو گولیاں مار کر شہید کردیاتھا۔ دونوں ملکوں پرمسجد اقصیٰ پر اسرائیلی پابندیوں کے بعد بھی کشیدگی میں اضافہ ہوا تھا۔ ایسے میں فلسطینیوں میں مصالحت کے حوالے سے عمان کا مثبت رد عمل فطری بات تھی۔
ھنیہ اور شاہ اردن میں رابطہ
عاطف الجولانی سے پوچھا گیا کہ حماس کے سیاسی شعبے سربراہ اسماعیل ھنیہ نے اردنی فرمانروا شاہ عبداللہ دوم سے ٹیلیفون پر رابطہ کیا۔ کیا یہ رابطہ حماس اورعمان میں تعلقات کے ایک نئے باب کا آغاز ہے؟
اس پر الجولانی نے کہا کہ حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ کی طرف سے یہ ایک مثبت پیش رفت ہے اور برقت کی گئی کوشش ہے۔ اس سے فلسطینی حلقوں کو ایک مثبت پیغام گیا ہے کہ اردن حماس کے ساتھ کئی سال سے چلے آرہے نرم گرم تعلقات کو مزید بہتر بنانے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ اردنی فرمانروا کا حماس کے سربراہ کے ساتھ ٹیلیفون پر بات چیت کرنا اردنی قوم کے لیے بھی ایک واضح پیغام ہے کہ عمان کو حماس کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں۔ تاہم اردن کا باضابطہ سرکاری موقف یہ ہے کہ عمان فلسطینیوں کے ساتھ فلسطینی اتھارٹی کے ذریعے رابطے چاہتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ حالیہ کچھ عرصے کے دوران اردن کی سیاسی حکمت عملی میں لچک اور تبدیلی کا عنصر بھی دیکھا گیا۔ اردن نے حکومتوں سے ہٹ کر تنظیموں اور اداروں کے ساتھ بھی رابطے بڑھائے ہیں۔ حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ھنیہ کے ساتھ ان کی ٹیلیفونک بات چیت اسی امر کی عکاس ہے۔ اس سے قبل اردنی فرمانروا عراق کے الصدر گروپ کے سربراہ مقتدیٰ الصدر سے بھی اردن میں ملاقات کر چکے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ موثر علاقائی قوتوں کے ساتھ رابطے بڑھانا اردن کے مفاد میں ہے۔ اردن تمام علاقائی اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ موثر اور متوازن تعلقات کے قیام کو فروغ دے کر علاقائی مسائل کے حل میں اپنا موثر کردار ادا کرسکتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں عاطف الجولانی نے کہا کہ حماس نے جس طرح علاقائی ممالک کے ساتھ رابطوں کے لیے اپنی پالیسی میں مزید لچک اور نرمی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ایسے ہی جماعت نے فلسطینی قوتوں کے قریب ہونے اور انہیں اپنے قریب کرنے کے لیے بھی لچک دکھائی ہے۔
مصالحت کے اعلان کے ساتھ حماس اپنی مزاحمتی پالیسی پر بھی عمل پیرا ہے۔ حماس اعلانیہ کہتی ہے کہ اس کے وجود کا مقصد ہی فلسطینی مزاحمتی پروگرام کو تحفظ دینا ہے۔ میرا خیال ہے کہ جماعت کے سیاسی موقف میں لچک کے نتیجے میں فلسطینیوں میں مصالحت کی راہ ہموار ہوئی اور کئی سال سے جاری انارکی اور بے اتفاق کو ختم کرنے کا موقع ملا ہے۔
یہ درست ہے کہ حماس نے مصالحت کے لیے غزہ کی پٹی کے انتظامی امور سے اپنا ہتھ کھینچ لیا ہے، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ حماس اپوزیشن کی طرف بڑھ رہی ہے۔ بلکہ قاہرہ میں طے پائے معاہدے کے تحت فلسطین میں ایک مخلوط قومی حکومت کی تشکیل کا فیصلہ کیا گیا ہے اور قومی حکومت میں حماس کو استثنیٰ حاصل نہیں ہے۔
ایران سعودی عرب کشیدگی کے قضیہ فلسطین پر اثرات
مرکزاطلاعات فلسطین کی طرف سے ایک اہم سوال یہ پوچھا گیا کہ آیا سعودی عرب کی ایران اور حزب اللہ کے ساتھ بڑھتی کشیدگی کے قضیہ فلسطین پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟۔
اس کے جواب میں الجولانی نے کہا کہ خطے میں کسی بھی حوالے سے پیدا ہونے والی کشیدگی کے براہ راست یا بالواسطہ طور پر قضیہ فلسطین پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جب علاقے میں دو قوتوں کے درمیان کشیدگی پیدا ہوگی اور لا محالہ اس کےنتیجے میں فلسطینیوں کے خلاف صہیونی ریاست کے جرائم سے توجہ ہٹ جائے گی۔ اسرائیل ایسے حالات پیدا کرنے کی خود بھی کوشش کرتا ہے کہ خطے کے ممالک آپس میں الجھے رہیں اور وہ اس الجھاؤ اور اختلافات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان ملکوں کواپنے زیردام لانے کے ساتھ فلسطینیوں کے بنیادی حقوق بھی دبائے رکھے۔
سعد حریری کا استعفیٰ
سعد حریری کے سعودی عرب میں استعفے کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں عاطف الجولانی نے کہا کہ فلسطینیوں میں یہ شعور اور احساس تیزی کے ساتھ اجاگر ہو رہا ہے کہ عرب ملکوں میں اختلافات کا منفی اثران کے حقوق پر مرتب ہوتا ہے۔ اردن فلسطینیوں کے حوالے سے اس لیے بھی اہم ہے کہ بڑی تعداد میں فلسطینی پناہ گزین اردن کی سرزمین پر موجود ہیں۔ اردن اور دوسرے کسی بھی ملک کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی لا محالہ فلسطینی پناہ گزینوں پر بھی اثر انداز ہوگی۔ میرا خیال ہے کہ فلسطینیوں کو اردن کی داخلی کشیدگی اور بیروت ، ریاض تعلقات میں کسی قسم کے تناؤ کے دوران خود کو غیر جانب دار رکھنا چاہیے۔