پنج شنبه 01/می/2025

زہریلا فُضلہ فلسطینیوں پر موت مسلط کرنے کا گھناؤنا صہیونی حربہ!

پیر 13-نومبر-2017

قابض صہیونی ریاست ایک طرف فلسطینی قوم پر طاقت کے مکروہ حربوں کا استعمال کرکے ان کی نسل کشی کے لیے کوشاں ہے تو دوسری طرف دشمن نے یہودی کالونیوں، کارخانوں اور کیمیائی اشیاء تیار کرنے والی فیکٹریوں سے نکلنے والے فضلے کو فلسطینی قوم پرایک نیا عذاب بنا کر مسلط کر رکھا ہے۔ یہ فضلہ فلسطینی انسانی، حیوانی، آبی حتیٰ کہ نباتاتی زندگی کے لیے زہرقاتل ثابت ہو رہا ہے۔
ستم یہ ہے کہ فلسطینی قوم کے پاس صہیونی ریاست کے اس گھناؤنے حربے کے انسداد کا کوئی معقول بندو بست بھی نہیں ہے۔

سنہ 1948ء کی جنگ میں تسلط میں لیے گئے فلسطینی شہروں میں بڑی تعداد میں اسرائیل کے کیمیائی کار خانے آباد ہیں۔ یہ صنعتی کالونیاں قائم ہیں۔ اس کے علاوہ بیت المقدس کے اطراف اور مقبوضہ مغربی کنارے کے علاقوں میں بھی ایسی کئی کالونیاں موجود ہیں جہاں پر کیمیائی سامان تیار کیا جاتا ہے۔ غرب اردن کی ان کالونیوں سے نکلنے والا فضلہ مقامی فلسطینی آبادی میں پھینک دیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں موذی اور جان لیوا امراض جنم لیتے ہیں۔ صہیونی انتظامیہ کے پاس غرب اردن کے کیمیائی کارخانوں سے نکالا جانے والا فضلہ پھینکنے کے متبادل مقامات موجود ہیں مگر قابض ریاست دیدہ و دانستہ طریقے سے یہ مہلک فضلہ اپنی سہولت کے پیش نظر قریبی فلسطینی علاقوں میں پھینک دیتی ہے۔

مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق سنہ 1948ء کے مقبوضہ علاقوں میں قائم اسرائیلی کارخانوں کے فضلے کو ٹھکانے کے لیے کئی مقامی کمیٹیاں اور کمپنیاں بھی قائم ہیں۔ ان کمپنیوں میں عرب  شہری بھی شامل ہیں۔ مگر بعض عرب ٹھیکیدار بھی بھاری رقوم کے عوض یہ فضلہ فلسطینی آبادیوں میں پھینک دیتے ہیں۔

انسانی حقوق کی مقامی اور عالمی تنظیموں کی طرف سے متعدد بار خبردار کیا گیا ہے کہ صہیونی انتظامیہ نے غرب اردن اور فلسطین کے دوسرے علاقوں میں فضلہ پھینکنے کے لیے 50 مقامات مختص کررکھے ہیں۔ یہ تمام وہ مقامات ہیں جہاں اس کے آس پاس بڑی تعداد میں فلسطینی شہری آباد ہیں۔

صہیونی حکام یہ فضلہ ایک سازش کے تحت فلسطینی آبادی میں پھینکتے ہیں تاکہ فلسطینی شہری بیماریوں کا شکار ہوں اور یہ مہلک فضلہ ان کے لیے موت کا سامان بن جائے۔
غرب اردن کے مشرقی شہر قلقیلیہ کے عزون قصبے سے تعلق رکھنے والے ایک فلسطینی علی شبیطہ نے مرکزاطلاعات فلسطین کے نامہ نگار سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ عزوزن اورجیوس قصبوں میں پھینکا جانے والا فاضل مادہ اور کوڑ کرکٹ جس میں مہلک کیمیائی مواد بھی شامل ہے فلسطینی آبادی کے لیے خطرناک بیماریوں کا موجب بن رہا ہے۔

اس کے علاوہ اسرائیلی کیمیائی کمپنیوں کی جانب سے ٹرکوں پر لاد کر کوڑا کرکٹ اور مہلک کیمیائی مواد غرب اردن کے شمالی شہر جنین کے زھرۃ الفنجان جیسے زرخیز اور شاداب علاقے میں پھینکا جاتا ہے۔ زھرۃ الفنجان کا ایک بڑا حصہ کوڑے کرکٹ اور فضلے سے اٹا پڑا ہے۔ بعد ازاں اس فضلے کو آگ لگا دی جاتی ہے جس کے نتیجے میں اٹھنے والا متعین دھواں مقامی شہریوں کو بیماریوں میں مبتلا کر رہا ہے۔

مقامی فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ زھرۃ الفنجان غرب اردن کے شمالی علاقوں کے ان 10 مقامات میں سے ایک ہے جنہیں کئی سال قبل کوڑا پھینکنے کے لیے مختص کیا گیا تھا۔

ایک مقامی سماجی گروپ ’معا‘ کے مطابق صہیونی حکام فلسطینیوں کو کیمیائی فضلہ ان کی زمینوں میں پھینکنے پر مجبور کرنے کے لیے بلیک میل کرتے ہیں۔ بعض اوقات ایک ٹرک فضلے پھینکنے پر فلسطینی شہریوں کو 100 ڈالر کے مساوی رقم ادا کی جاتی ہے جب کہ بعض اوقات یہ رقم پچاس ڈالر تک ہوتی ہے۔

فلسطینی تجزیہ نگار اور وبائی امراض کے ماہر جارج کرزم نے مرکز اطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صہیونی کالونیوں سے لایا گیا کوڑا کرکٹ اور کیمیائی فضلہ کئی سال سے غرب اردن کے علاقوں میں وبائی امراض پھیلانے کا موجب بن رہا ہے۔

انہوں نے کوڑا کرکٹ ٹھکانے والے ٹھیکیدارون کو خبردار کیا کہ وہ اسرائیلی کارخانوں اور کالونیوں سے لایا جانے والا کوڑا فلسطینی آبادیوں کے قریب پھینکے سے سختی سے گریز کریں۔ ان کا کہنا ہے کہ ٹھیکیدار فلسطینیوں کو جتنی رقم فضلہ ان کی اراضی میں پھینکنے کی رقم ادا کرتےہیں اس کے نتیجے میں ماحول کو پہنچنے والا نقصان اس سے کہیں زیادہ ہے۔

قانون پرعمل درآمد کا فقدان
ذرائع کا کہنا ہے کہ کوڑا کرکٹ پھینکنے کی اجازت دینے والے فلسطینیوں اور ٹھیکیداروں کے درمیان لین دین کے معاہدے ہوتے ہیں۔ مگر فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے اس حوالے سے نہ تو قانون سازی کی جاتی ہے اور نہ ایسے لوگوں کے لیے کوئی سزا تجویز کی گئی ہے جو اپنی زمینوں کو اسرائیلی کوڑے کا ڈھیر بنانے کی اجازت دیتے ہیں۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے ان افراد کے خلاف سخت قانونی کارروائی عمل میں لائی جانی چاہیےجو اسرائیلی کمپنیوں کے ساتھ کوڑے کو ٹھکانے لگانے کے ٹھیکیداروں کے ساتھ معمولی رقم کے عوض مہلک فضلہ پھینکنے کی اجازت دیتے ہیں۔

ایک فلسطینی شہری نے بتایا کہ فلسطین میں دانستہ طور پرفضلہ آبادی میں پھینکنے اور مہلک امراض کا موجب بنے والے افراد کے خلاف سخت سزائیں موجود ہیں۔ ایسے افراد کو آئین کے آرٹیکل13 کے تحت با مشقت عمر قید کی سزا کی  سفارش کی گئی ہے۔

 

مختصر لنک:

کاپی