فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس کے ماتحت نام نہاد سیکیورٹی فورسز کی طرف سےغرب اردن میں صہیونی فوج کے ساتھ مل کر پولیس گردی کا سلسلہ جاری ہے۔ گذشتہ روز عباس ملیشیا نے غرب اردن کے شمالی شہر نابلس میں قائم ایک فلسطینی مجسٹریٹ عدالت میں اسیران کے کیسز کی پیروی کرنےوالے ایک سرکردہ وکیل ایڈووکیٹ محمد حسین کو کمرہ عدالت سے حراست میں لے لیا۔
دوسری جانب فلسطین میں وکلاء برادری، ذرائع ابلاغ اور انسانی حقوق کے گروپوں نے عباس ملیشیا کی پولیس گردی کی شدید مذمت کرتے ہوئے حراست میں لیے گئے وکیل سمیت تمام غیرقانونی محروسین کو فوری رہا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ عباس ملیشیا کے سادہ کپڑوں میں ملبوس انٹیلی جنس حکام عدالتی احترام کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس وقت کمرہ عدالت میں پہنچ گئے جب عدالت میں ایک کیس کی سماعت جاری تھی۔ عباس ملیشیا کے غنڈہ گردوں نے ایڈووکیٹ حسین کو بھرے کمرہ عدالت میں وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا اور ججوں کے سامنے اسے اٹھا کر لے گئے۔
واقعے کے بعد وکلاء نے عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کیا اور مجسٹریٹ عدالت کے باہر کئی گھنٹے اپنے ساتھی کے ساتھ بدسلوکی کے احتجاجی دھرنا دیا۔ وکلاء نے محمد حسین کو فوری طور پر باعزت رہا کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔
دوسری جانب عباس ملیشیا نے اپنے موقف میں کہا ہے کہ وکیل کی گرفتاری نابلس میں دیر الحطیب کے مقام پر پانی صاف کرنے کا فلٹر نصب کرنے کے مطالبے کے لیے نکالے گئے مظاہرے کے دوران توڑپھوڑ کرنے کے الزام میں کی گئی ہے۔ حسین پرالزام ہے کہ اس نے دیگر مظاہرین کے ساتھ مل کر احتجاجی مظاہرے کے دوران دیر الحطب میں توڑپھوڑ کی تھی اور کئی قیمتی درخت کاٹ ڈالے تھے۔
تاہم وکلاء برادری نے عباس ملیشیا کے اس دعوے کو من گھڑت قرار دیتے ہوئے محمد حسین کی گرفتاری کو قطعا غیرقانونی قرار دیا ہے۔ وکلاء کا کہنا ہے کہ ایڈووکیٹ محمد حسین کی گرفتاری وکلاء کو ہراساں کرنے، فلسطینی شہریوں کے مقدمات کی پیروی سے روکنے اور اسیران کے حقوق کے لیے لڑنے سے روکنا ہے۔