فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی کا مشرقی علاقہ ’الشجاعیہ‘ اپنی تاریخی اور مزاحمتی اہمیت کے اعتبار سے غزہ کا دھڑکتا دل اور مشرقی دروازہ کہلاتا ہے۔ الشجاعیہ کے باسیوں نے غیرملکی غاصب قوتوں کے خلاف جرات، بہادری، جانثاری، آزادی اور مزاحمت کی ایسی ایسی لازوال داستانیں رقم کیں جنہیں رہتے زمانوں تک یاد رکھا جائے گا۔
الشجاعیہ کی مزاحمتی، دلیری اور جانفروشی کی داستان بہت پرانی اور طویل ہے مگر اس باب میں تاریخ کا سب سے پہلا معرکہ 637ھ بہ مطابق 1239ء میں لڑا گیا جب صلیبیوں نے فلسطین پر اپنے پنجے جما رکھے تھے۔ جنگ حطین کے بعد الشجاعیہ کے علاقے میں مقامی فلسطینیوں اور صلیبیوں کے درمیان گھمسان کی جنگ ہوئی۔ اس جنگ میں ایک کرد بطل حریت شجاع الدین عثمان الکردی نے بہادری کی بے مثال داستان رقم کی۔ یہی وہ معرکہ آزادی تھا جو اس کے بعد الشجاعیہ کے لیے بہادری اور جانفروشی کی علامت بن گیا۔ شجاع الدین عثمان الکردی کے نام کی نسبت سے اس علاقے کو الشجاعیہ قرار دیا جانے لگا۔ آج بھی اس کا نام شجاع الدین الکردی ہی کی نسبت سے اپنا ایک خاص مقام رکھتا ہے۔
الشجاعیہ کی تاریخ
آٹھویں صدی ھجری میں الشجاعیہ باقاعدہ ایک خوش حال اور اس دور کے اعتبار سے ترقی یافتہ شہر تھا۔ اپنی خوبصورت تعمیرات، دیدہ زیب مصنوعات اور تہذیب وتمدن کے ساتھ تجارتی میدان میں بھی آگے تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ممالیک کےدور میں اسے ’مملکہ الغزیہ‘ کہا جانے لگا۔ اس کے علاوہ ’غزہ المحروسہ‘ اورخلیل الظھری نے اسے شاہ کی دھلیز قرار دیا۔
فلسطینی مؤرخ سلیم المبیض کا کہنا ہے کہ اقتصادی ترقی نے الشجاعیہ کی عمر طویل اور اس کے فن تعمیر کو وسعت دی۔ یہاں کئی بڑی جامع مساجد، حمام، درسگاہیں قائم کی گئیں۔ یہ کالونی غزہ سے الگ ایک شہر کی شکل اختیار کرگئی تھی۔
غزہ کی تاریخ الشجاعیہ کی تاریخ کے بغیر ادھوری رہے گی۔ اس کالونی کی تاریخی مساجد، قبرستان اور از کار رفتہ عمارتوں کے ڈھانچے آج بھی اس کی عظمت رفتہ کی گواہی دیتےہیں۔ جغرافیائی اعتبار سے یہ کالونی دو حصوں میں منقسم ہے۔ ایک حصہ جنوبی الشجاعیہ ہے جس کا رقبہ 4016 دونم ہے۔ اسے الترکمان بھی کہا جاتا ہے۔ شمالی حصے کا رقبہ 4958 دونم ہے جسے ‘اجدیدہ‘ کا نام دیا جاتا ہے۔
الشجاعیہ کی اس وقت آبادی ڈٰیڑھ لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ یہ کالونی غزہ اپنی پڑوسی کالونیوں الدرج، التفاح اور الزیتون سے زیادہ ترقی یافتہ اور غزہ کی سب سے بڑی کالونی ہے۔
الشجاعیہ کے تاریخی مقامات
الشجاعیہ اپنے کئی اہم تاریخی مقامات کی وجہ سے بھی شہرت رکھتا ہے۔ پرانے الشجاعیہ کا ’جمعہ بازار‘ صدیوں پرانا ہے۔ اس میں صرف جمعہ کے روز دکاندار اسٹال لگاتے ہیں۔ اسے مویشی منڈی بھی قرار دیا جاتا ہے کیونکہ یہاں ہفتہ وار بکریوں اور گائے بیل وغیرہ کی خریدو فروخت بھی کی جاتی ہے۔
الشجاعیہ کا دوسرا اہم لینڈ مارک’ احمد بن عثمان‘ مسجد ہے۔ یہ مسجد کالونی کے وسط میں تجارتی مرکز میں واقع ہے۔ اس مسجد سے متصل ممالیک شہنشاہ سلطان الظاھر برقوق کی آخری آرام گاہ ہے۔ برقوق 849ھ میں غزہ کے گورنری تھے اور سنہ 850 میں انہوں نے وفات پائی۔ وہ اسی مسجد کے پہلو میں دفن ہیں۔
اس کے علاوہ دیگر تاریخی مقامات میں مسجد الھواشی، مسجد سیدہ رقیہ، مسجد علی بن مروان، شاہراہ صلاح الدین، مسجد الاصلاح، مسجد طارق بن زیاد، جامع القزمری، مسجد دار قطنی، ذوالنورین مسجد اور مسجد سیدنا علی مشہور اور جامع مساجد ہیں۔
الشجاعیہ کالونی کے مشرقی حصے میں ’تیونسی قبرستان‘ واقع ہے۔ اسے التفلیسی قبرستان بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں پر ایک مشہور شخصیت شمشون الجبار کی قبر بھی موجود ہے۔
فلسطینی مورخ سلیم المبیض کے بہ قول کالونی کے مشرق میں اہم مقام ‘ٹیلہ المنطار‘ ہے۔ اس ٹیلے کی سطح سمندر سے اونچائی 90 میٹر ہے۔
الشجاعیہ غزہ کے دیگر علاقوں کی نسبت زیادہ اونچائی پر واقع ہے۔ اس کالونی کی عسکری اور تزویراتی اہمیت بھی غیرمعمولی بتائی جاتی ہے۔ نابلین بونا پارٹ کے دور میں یہاں ایک فوجی کیمپ بنایا گیا تھا۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران بوناپارٹ کے ہزاروں فوجی عثمانی فوج کے ہاتھوں جہنم واصل ہوئے۔ یہ تمام فوجی جنگی عظیم اول کے نام سے مشہور قبرستان میں دفن ہیں۔
الشجاعیہ کے مکینوں کی اکثریت دین دار ہے۔ یہاں رہنے والے خاندانوں کا آپس میں گہرا میل جول ہے۔ یہاں کے قبائل اور سرکردہ شخصیات نے مقامی شہریوں کی مشکلات کے حل کے لیے ایک اصلاحی کمیٹی بھی تشکیل دے رکھی ہے۔
الشجاعیہ کو غزہ کے قبائل کی کالونی بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں کے مشہور قبائل میں حلس، جندیہ، حسنین، الجعبری، قریقع، المغنی اور حجاج کے علاوہ دسیوں اور قبائل بھی آباد ہیں۔
مزاحمت کی تاریخ
الشجاعیہ کی مزحمتی تاریخ پرانی ہے مگر معاصر تاریخ میں اسرائیلی قبضے کے خلاف پہلی تحریک انتفاضہ کا پہلا شرارہ اسی کالونی سے پھوٹا۔ یہاں کے فلسطینی مجاھدین اور اسرائیلی فوج کے درمیان کئی بار لڑائیاں ہوئیں اور دشمن کو منہ کی کھانا پڑی۔
غزہ کی پٹی سے صہیونی فوج کی بے دخلی میں یہاں کے مقامی باشندوں کا کلیدی کردار ہے۔ الشجاعیہ تمام فلسطینی تنظیموں کا مرکز سمجھی جاتی ہے۔ کئی اہم اسلامی اور قومی تحریکوں کا آغاز الشجاعیہ سے ہوا۔
جدید مزاحمتی تاریخ میں الشجاعیہ کا شہید احمد الجعبری کی وجہ سے بھی مشہور ہے۔ اسلامی جہاد کی ام نضال فرحات جنہیں خنساء فلسطین بھی کہا جاتا ہے اسی کالونی سے تعلق رکھتی تھیں۔
غزہ کی پٹی پر سنہ 2008، 2012ء اور 2014ء کی جنگوں کے دوران یہاں کے مزاحمت کار دشمن کے خلاف نہایت بے جگری سے لڑے اور اپنی جانوں پر کھیل کر دشمن کے ناپاک عزائم خاک میں ملائے۔
صہیونی فوج نے 2014ء کی جنگ کے دوران الشجاعیہ کالونی پر کارپٹ بمباری کی جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں نہتے فلسطینی شہید ہوئے۔
غالبا 20 جولائی اتوار 2014ء کو اسرائیلی فوج نے الشجاعیہ میں نہتے فلسطینیوں کو وحشیانہ قتل عام کیا۔ فضائی بم باری کے ساتھ اسرائیلی ٹینکوں اور توپخانے سے کیے گئے حملوں میں 70 فلسطینی شہید اور سیکڑوں معصوم شہری زخمی ہوئے۔
الشجاعیہ کالونی اپنی تاریخ تحریک مزاحمت کے اعتبار سے ہمیشہ مشہور رہے گی کیونکہ اس کالونی کا کوئی بھی ایسا گھرانہ نہیں جہاں کوئی شہید، زخمی یا اسیر نہ ہو۔