یکشنبه 23/مارس/2025

برطانیہ ’اعلان بالفور‘ پر معافی کیوں نہیں مانگے گا؟

ہفتہ 4-نومبر-2017

فلسطین، اسرائیل اوربرطانیہ میں ان دنوں اپنے اپنے مخصوص زاویہ نگاہ سے ’اعلان بالفور‘ پر بحث جاری ہے۔ برطانیہ حسب سابق اپنی تاریخی غلطی پر ڈٹا ہوا ہے۔ فلسطینی قوم اور انسانی حقوق کی تنظیمیں برطانیہ سے معاصر تاریخ کے سب سے بڑے فریب پر معافی مانگنے کا مطالبہ کرتی ہیں۔ دوسری جانب صہیونی ریاست اعلان بالفور کی صد سالہ تقریبات بغلیں بجا رہے ہیں۔ انہیں خوشی ہے کہ اعلان بالفور کے نتیجے میں آج ارض فلسطین میں یہودیوں کا قومی وطن قائم ہے۔ برطانوی وزیراعظم تھریسا مے کا کہنا ہے کہ انہیں فخر ہے کہ برطانیہ نے آج سے ایک سو سال پیشتر فلسطین میں یہودیوں کے قومی وطن کے قیام کے لیے اعلان بالفور جاری کیا تھا۔

اعلان بالفور کے دیگر پہلوؤں کے ساتھ ساتھ اس کا ایک پہلو برطانیہ سے معافی منگوانا بھی ہے، مگر تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ برطانیہ اعلان بالفور پر معافی نہیں مانگے گا۔

مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اگر اعلان بالفور پر برطانیہ سے معافی منگوانا ہے تو اس کے لیے پہلے پوری مسلم امہ کو ایک موقف اپنانا ہوگا یا کم سے کم تمام عرب ممالک کو متفقہ طور پر برطانیہ سے مطالبہ کرنا ہوگا کہ وہ اعلان بالفور پر فلسطینی قوم ، عرب اور مسلم امہ سے معافی مانگے۔

فلسطینی سیاسی تجزیہ نگار عزام التمیمی کا کہنا ہے کہ جن حالات میں ’اعلان بالفور‘ جاری کیا گیا ان حالات کو باریکی سے سمجھنا ہوگا۔ یہ کوئی اچانک فیصلہ یا اقدام نہیں تھا۔ ہم اعلان بالفور کے منفی اثرات کو زائل کرنے پر بات کر سکتے ہیں مگر اعلان بالفور کے منفی اثرات زائل کرنے پر بات کرنا صہیونی ریاست کےزوال پر بات کرنا ہے۔

مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ موجودہ برطانوی حکومت اسرائیل کی طرف دار ہے حالانکہ برطانوی رائے عامہ فلسطینیوں کے حق میں بدل رہی ہے۔ سنہ 1987ء کے بعد فلسطین میں شروع ہونے والی تحریک انتفاضہ اوراس کے بعد کے تین عشروں کے دوران برطانیہ میں عوامی سطح پر غیرمعمولی تبدیلیاں دیکھی گئیں اور لوگوں کی بڑی تعداد فلسطینیوں کی حمایت کرتی دکھائی دیتی ہے۔

برطانیہ میں مقیم فلسطینی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ برطانیہ کی موجودہ فلسطین بارے پالیسی میں کسی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں کیونکہ برطانیہ کی اس وقت نظریں عرب خطے میں آنے والی تبدیلیوں پرمرکوز ہیں۔

مطلوبہ کردار

عالمی ماہر قانون عبدالحمید شعبان نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اعلان بالفور کے خلاف عرب ممالک کے اقوام اور حکومتوں کے درمیان اتفاق رائے ضروری ہے۔ ورنہ برطانیہ اعلان بالفور کو ختم نہیں کرے گا۔ برطانیہ اعلان بالفور کے منفی نتائج پر سنجیدگی سے غور نہیں کررہا ہے۔

مرکزاطلاعات فلسطین کے نامہ نگار سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اعلان بالفور کے منفی اثرات کو زائل کرنے کے لیے تمام ہتھیاروں کو استعمال کرنا ہوگا۔ ان میں سب سے موثر ہتھیار عرب ممالک کے موقف میں یکسانیت اور ہم آہنگی ہے۔ اس کے علاوہ تمام عرب ممالک کو برطانیہ کو معذرت کرنے پر مجبور کرنے کے لیے اقتصادی، ثقافتی، ابلاغی، سیاسی، سفارتی اور تجارتی ذرائع کو استعمال کرنا ہوگا۔

لبنان میں مقیم فلسطینی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ برطانیہ کو اعلان بالفور کے باعث فلسطینیوں کو پہنچنے والے نقصانات کا قائل کرنا ہوگا۔ جب تک برطانیہ کو اس نام نہاد اعلان کے تباہ کن اثرات کے اعتراف پر مجبور نہیں کیا جاتا اس وقت تک لندن کے موقف میں کسی قسم کی تبدیلی ناممکن دکھائی دیتی ہے۔ اعلان بالفور کے بعد ’لیگ آف نیشن‘ کی  قرار داد 181 بھی اہمیت کی حامل ہے۔ اس قرارداد کی بناء پر سنہ 1947ء میں فلسطین میں صہیونی ریاست کی مزید راہ ہموار کی گئی تھی۔

ناجائز قبضہ

فلسطینی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ’اعلان بالفور‘ اس وقت جاری کیا گیا جب فلسطین پر برطانیہ کا تسلط قائم تھا۔ کئی دوسرے عرب ممالک بھی برطانیہ کے غیرقانونی تسلط میں تھے۔ برطانیہ کو اپنے زیرتسلط علاقوں اور وہاں کی اقوام کے بارے میں اپنی مرضی سے کسی قسم کا فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں تھا۔ اس اعتبار سے یہ ایک غیر قانونی اور غیرانسانی اقدام تھا۔

عزام تمیمی کا کہنا ہے کہ کئی عرب ممالک برطانیہ سے زیادہ صہیونی ریاست کی ہمدردیاں سمیٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جو ممالک صہیونی ریاست سے قربت رکھتے ہیں پہلے انہیں اپنا موقف بدلنا ہوگا۔ فلسطین کی آزادی کے لیے جدو جہد کرنے والی تنظیموں کو دہشت گرد قراردینے کا طرز عمل اسرائیل کو خوش کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ عرب دنیا کو فلسطینی مزاحمتی قوتوں کے بارے میں ایک اصولی موقف اپناتے ہوئے ان کی حمایت کرنا ہوگی۔

مختصر لنک:

کاپی