مارچ سنہ 1949ء کو ترکی پہلا مسلمان اکثریتی ملک تھا جس نے اسرائیل کو تسلیم کیا۔ ترکی کا شمار ان اولین چند ممالک میں ہوتا ہے جنہوں نے فلسطین میں صہیونی ریاست کو تسلیم کیاتھا۔
دونوں ملکوں کے درمیان عشروں تک تجارتی، سیاحتی، سرمایہ کاری، سیاسی، سفارتی اور عسکری شعبوں میں گرم جوش تعاون جاری رہا۔ ترکی نے پانے کے شعبے میں اسرائیل کی خدمات حاصل کیں۔
تاہم سنہ 1999ء کے بعد ترکی اور اسرائیل کے درمیان تعلقات میں ترقی معکوس کا سفر شروع ہوا۔ ترکی میں اسلام پسند جماعت ’انصاف و ترقی‘ کے اقتدار میں آنے اور طیب ایردوآن کی ترکی کی زمام کار ہاتھ میں لینے کے بعد سنہ 2002ء میں ترکی اور اسرائیل ایک دوسرے سے دور ہونے لگے۔
سنہ 2010ء میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے ترکی اور اسرائیل کے برسوں سے جاری تعاون کو یک دم ختم کردیا۔ یہ واقعہ فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی کے لیے امداد لے جانے والے ایک ترک بحری جہاز’مرمرہ‘ پر اسرائیلی بحریہ کا حملہ تھا جس کے نتیجے میں نو ترک رضاکار شہید اور پچاس سے زاید زخمی ہوگئے۔ ترکی نے اس واقعے کے بعد صہیونی ریاست سے سفارتی تعلقات ختم کردیے۔ دونوں ملکوں میں 2016ء کے وسط تک تعلقات منطقع رہے۔ بالآخر اسرائیل نے ترک رضاکاروں کے قتل پر معافی مانگی اور متاثرین کو ہرجانہ ادا کیا۔
اسرائیل کی طرف سے معافی مانگنے اور مرمرہ کے متاثرین کو ہرجانہ ادا کرنے کے بعد اگرچہ تل ابیب اور انقرہ کے درمیان سفارتی تعطل تو ختم ہوگیا مگر دونوں ملکوں کی مقتدر قیادت ایک دوسرے سے مسلسل فاصلے پر ہے۔ ترکی کا اسرائیل کے بارے میں سخت لہجہ اب بھی برقرار ہے اور موجودہ ترک حکومت فلسطینی قوم کی کھل کر حمایت کرتی ہے۔
پچیس اگست کو عراق کے شمالی صوبے کردستان کی قیادت نے آزادی ریفرینڈم کرایا۔ ترکی اور عراق نے اس ریفرینڈن کو دونوں ملکوں کی قومی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ قرار دیا۔ ترک حکومت کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ مشرق وسطیٰ میں آزاد کردستان ریاست کا قیام ایک اور اسرائیل کے قیام کے مترادف ہے۔ لہٰذا وہ کرد ریاست کو کسی صورت میں قائم نہیں ہونے دیں گے۔ دوسری طرف اسرائیل نے جو برسوں سے فلسطینی قوم کے حق خود ارادیت کو فوجی طاقت سے کچلنے کی پالیسی اپنا رکھی ہے نام نہاد کرد ریاست کی حمایت کی اور کہا کہ کردوں کو اپنی آزاد مملکت بنانے کا حق ہے۔
اسرائیلی اخبار ’یروشلم پوسٹ‘ کی رپورٹ کے مطابق کردستان کے آزادی ریفرینڈم نے ترکی کو اسرائیل سے دور اور ایران کے قریب کردیا، کیونکہ اس ریفرینڈم کے بعد ترک صدر طیب ایردوآن نے ایران کا دورہ کیا۔ ایران اور ترکی دونوں کرد ریاست کے قیام کے حوالے سے ایک صفحے پر ہیں۔
عالمی ذرائع ابلاغ میں آنے والی رپورٹس میں کہا جا رہا ہے کہ ترکی اور اسرائیل ایک دوسرے کے خلاف سفارتی محاذوں پر صف آراء ہیں۔ اس لیے یہ امکان موجود ہے کہ ترکی عنقریب صہیونی ریاست سے سفارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان کردے۔ اگر اسرائیل کی طرف سے کرد ریاست کے قیام کی حمایت کا سلسلہ بند اور فلسطینیوں کے حقوق دبائے رکھنے کی پالیسی پر عمل جاری رہا تو تل ابیب اور انقرہ کے درمیان کشیدگی نوشتہ دیوار ہے۔