ایک طرف صہیونی ریاست اور دنیا بھر میں سرگرم صہیونی لابی یہودیوں کو سبز باغ دکھا کر نام نہاد اسرائیلی ریاست میں لانے اور آباد ہونے کی مہمات چلا رہی ہے جب کہ زمینی حقیقت یہ ہے کہ اندر خانہ بدترین سماجی، معاشی اور امن وامان کے مسائل کا سامنا کرنے والی صہیونی ریاست کے 58 فی صد طلباء اور نوجوان اسرائیل سے بھاگنے پرغور کررہے ہیں۔
اسرائیل کے ایک کثیرالاشاعت عبرانی خبار ’معاریو‘ نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں سروے شائع کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ملک میں جاری معاشی بحران، غیریقینی مستقبل اور سماجی مسائل کی وجہ سے 58 فی صد یہودی طلباء متبادل ممالک کی طرف نقل مکانی پر غور کررہے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 34 فی صد یہودی طلباء اور نوجوان روز گار اور مستقل قیام کے لیے یورپی ملکوں کی طرف نکلنے پر غور کررہے ہیں۔ انہوں نے اپنی نقل مکانی پر غور کی وجہ اسرائیل کی معاشی مسائل قرار دیے ہیں جب کہ 24 فی صد یہودیوں کی طرف سے نقل مکانی پرغور کی وجہ نہیں بتائی گئی۔ البتہ یہ یہودی بھی اسرائیل میں خود کو غیر محفوظ اپنے اور مستقبل کو غیریقینی تصور کرتے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل میں معقول رہائش،باعزت روزگار اور محفوظ کاروبار نواجوان یہودیوں کی خواہش ہے مگر انہیں یہاں کے حالات سازگار دکھائی نہیں دیتے۔
ایک عبرانی ویب سائیٹ ’گیوال‘ کے زیراہتمام کئے گئے سروے میں اسرائیل کے 20 سے 24 سال کی عمر کے 20 فی صد، 25 سے 29 سال کے 24 فی صد اور 30 سال کی عمر کے 31 فی صد یہودی طلباء اسرائیل چھوڑنے پرغور کررہے ہیں۔
سروے رپورٹ کے مطابق اسرائیل چھوڑنے پرغور کرنے والوں میں 66 فی صد لڑکیاں اور 57 فی صد لڑکے شامل ہیں۔ القدس میں آباد 40 فی صد یہودی طلباء کا کہنا ہے کہ وہ یورپی ملکوں میں جانا چاہتے ہیں۔ اسرائیل کے مرکز کے 58 فی صد، جنوب کے 65 فی صد، شمال کے 66 فی صد یہودی نوجوان ملک چھوڑنے کے لیے پرتول رہے ہیں۔