تین پڑوسی عرب ملکوں اور مصر کےساتھ جاری سفارتی اور اقتصادی بحران کے باعث خلیجی ریاست قطر کو بدترین معاشی بحران کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ معاشی خسارہ پورا کرنے کے لیے قطری حکومت بیرون ملک کی گئی سرمایہ کاری ختم کرنے پر مجبور ہوگئی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق قطر نے بیرون ملک کی گئی سرمایہ کاری میں سے 20 ارب ڈالر کی رقم ان منصوبوں سے نکال لی ہے۔
یہ رقم قطری فنڈ کی ملکیت ہے جسے بیرون ملک سرمایہ کاری کے مختلف منصوبوں پر لگایا گیا تھا۔
برطانوی جریدہ ’فائننشل ٹائمز‘ کے مطابق قطری انویسٹ منٹ سسٹم نے دوحہ کے عرب بائیکاٹ کے نتیجے میں ہونے والے خسارے کو پورا کرنے کے یلے بیس ارب ڈالر کی رقم واپس بنکوں میں منتقل کردی ہے۔
اخبار نے قطری وزیر خزانہ علی شریف العمادی کا ایک بیان بھی نقل کیا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ دوحہ بیرون ملک سرمایہ کاری فنڈ کی رقم سے بنکوں کو درپیش قلت پوری کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق سعودی عرب، بحرین، متحدہ عرب امارات اور مصر کی جانب سے قطر کے اقتصادی اور سفارتی بائیکاٹ کے بعد دوحہ بیرون ملک سے اپنی 30 ارب ڈالر کی رقم واپس ملک میں لا چکا ہے۔
وزیرخزانہ کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات کے پیش نظر بیرون ملک سے رقوم کی وطن واپسی فطری ہے۔
علی شریف العمادی کاکہنا ہے کہ ہم نے بیرون ملک سرمایہ کاری کے منصوبوں پر لگائی رقم ملک میں واپس کرنا شروع کی ہے۔یہ رقم قطری انویسٹمنٹ فنڈ، وزارت خزانہ اور دیگر اداروں کی جانب سے بیرون ملک سرمایہ کاری کے منصوبوں پر صرف کی گئی تھی۔ موجودہ حالات میں اس رقم کو واپس لانا فطری امر ہے۔ ایسا احتیاطی اور حفاظتی نقطہ نظر سے کیا جا رہا ہے۔
’موڈیز‘ ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق قطر نے پڑوسی ملکوں سے بحران پیدا ہونے کے بعد 38.5 ارب ڈالر کی رقم اپنے بنکوں میں منتقل کی ہے۔
قطری سرماریہ کاری بورڈ نے حال ہی میں ’کریڈ سویز‘ بنک، دا سوئس بنک، روسی توانائی کمپنی ’روز نفٹ‘ امریکی کمپنی ‘ٹیوانی اینڈ کو‘ اور کئی دوسرے اداروں میں اپنے حصص فروخت کردیے تھے۔
قطری وزیر کا کہنا تھا کہ ہمیں بعض عرب ممالک کے ساتھ کشیدگی کا سامنا ہے۔ تاہم ہمارے پاس پیسے کی قلت نہیں۔ ہم اپنی تزویراتی سرگرمیاں جاری رکھیں گے۔ جیسے ہی حالات سازگار ہوئے ہم بیرون ملک سرمایہ کاری کریں گے۔