فلسطین میں اسیران کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک ادارے کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اکتوبر2015ء سے فلسطین میں شروع ہونے والی تحریک انتفاضہ القدس کے دوران اب تک 14 ہزار فلسطینیوں کو حراست میں لیا گیا۔
مرکزاطلاعات فلسطین اسیران اسٹڈی سینٹر کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قابض صہیونی انتظامیہ، فوج اور پولیس نے تحریک انتفاضہ القدس کو کچلنے کے لیے بڑے پیمانے پر فلسطینیوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کیا۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے اور روز مرہ کی بنیاد پر فلسطینی شہریوں کو گرفتار کرکے جیلوں میں ڈالا جاتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق گذشتہ دو سال کے دوران اسرائیلی فوج نے فلسطینی شہروں میں گھر گھر چھاپوں، مظاہرین پر حملوں اور دیگر کارروائیوں میں 14 ہزار فلسطینیوں کو حراست میں لے کر جیلوں میں ڈالا۔ ان میں سے 3100 کم عمر بچے، 437 خواتین شامل ہیں۔ 450 فلسطینیوں کو سوشل میڈیا پر اسرائیلی فوج کے خلاف سرگرمیوں کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دوران حراست فلسطینی شہریوں کو ہولناک اذیتیں دی جائیں۔ انہیں جسمانی اور نفسیاتی تشدد کا نشانہ بنایا۔ تشدد کا نشانہ بننے والوں میں بچے، بڑے اور خواتین سب شامل ہیں۔
گذشتہ دو سال کے دوران 2860 فلسطینیوں کو نام نہاد انتظامی حراست کی پالیسی کے تحت قید کیا گیا۔ انتظامی حراست کی سزا پانے والوں میں 17 خواتین، 42بچے اور کئی فلسطینی ارکن پارلیمنٹ شامل ہیں۔
انتفاضہ القدس کے دوران اسرائیلی فوج کی کارروائیوں میں 65 کم عمر بچیوں کو حراست لیا گیا۔ ان میں ایک 12 سالہ دیما اسماعیل الواوی بھی شامل ہیں۔ صہیونی عدالتوں سے فلسطینی خواتین کو قید اور جرمانوں کی سزاؤں کا سلسلہ بھی جاری رہا۔
اس دوران اسرائیلی فوج نے 16 فلسطینی ارکان پارلیمان کو حراست میں لیا۔ ان میں سے چھ کو رہا کیا گیا ہے جب کہ 10 تا حال پابند سلال ہیں۔
قابض فوج نے انتفاضہ القدس کےدو سالہ عرصے میں 150 معمر فلسطینیوں، 39 اساتذہ اور دانشوروں، 240 مریجوں اور معذوروں اور 115 صحافیوں کو حراست میں لیا۔