پاکستان کا شمار عالم اسلام عسکری اعتبار سے بڑے اور موثر ممالک میں ہوتا ہے مگر سچ پوچھیں توقضیہ فلسطین کے حوالے سے پاکستان کی طرف سے ادا کیا جانے والا کردار اس کے حجم اور اہمیت کے اعتبار سے کم ہے۔ تاہم مستقبل میں اس حوالے سے تبدیلی کا امکان موجود ہے۔
قیام پاکستان سنہ 1947ء سے اب تک پاکستان کو کئی چیلنجز درپیش رہے ہیں۔ بھارت کے ساتھ پاکستان متعدد جنگیں لڑکا چکا ہے۔ جنوب مشرقی صوبہ بلوچستان میں علاحدگی پسندی کی تحریک نے بھی پاکستان کی خارجہ توجہ کو متاثر کیا ہے، اس کے باوجود پاکستان عالم اسلام میں ایک موثر مقام رکھتا ہے۔
آنے والے عرصے میں پاکستان کا قضیہ فلسطین کے حوالے سے کردار مزید موثر ہوسکتا ہے۔ اس کے متعدد اسباب اور عوامل ہوسکتے ہیں۔ ان میں ایک سبب عالمی محاذوں پر بھارت کے ساتھ پنجہ آزمائی ہے۔
حالیہ عرصے کے دوران بھارت نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی پالیسی اپنائی۔ دونوں ملکوں کے درمیان سیاسی، عسکری اور اقتصادی میدانوں میں تعاون بڑھانے کے متعدد معاہدے ہوئے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی رواں سال جولائی میں اسرائیل کا دورہ بھی کرچکے ہیں۔ وہ بھارت کے پہلے وزیراعظم ہیں جنہوں نے اسرائیل کے ساتھ اس حد تک قربت پیدا کی ہے۔ یہ ایک تاریخی واقعہ ہے کہ کوئی بھارتی وزیراعظم اسرائیل کےدورے پرآیا ہے۔ حالانکہ سنہ 1992ء تک بھارت نے اسرائیل کو سرکاری طور پر تسلیم ہی نہیں کیا تھا۔ بھارت روز اول سے فلسطین میں قیام اسرائیل کی مخالفت کرتے ہوئے قضیہ فلسطین کے حوالے سے عرب اور مسلمان ممالک کے ساتھ رہا ہے مگرسنہ 2014ء میں تل ابیب اور نئی دہلی کے درمیان تعلقات میں اس وقت گرم جوشی آئی امریکا اور بھارت کے درمیان پاکستان سے تعلقات کی قیمت پر ایک نیا معاہدہ طے پایا۔
سرخ لکیر سے آگے
امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کے بعد واشنگٹن اور نئی دہلی کے درمیان قربت میں اضافہ ہوا جب کہ اسلام آباد اور امریکا کے درمیان تناؤ پیدا ہونے کے بعد حالات کافی کشیدہ ہوئے ہیں۔
امریکا افغانستان میں جاری جنگ میں بھارت کو اپنے زیادہ قریب سمجھتا ہے اور افغان جنگ میں اپنی ناکامیوں کی ذمہ داری پاکستان پر عاید کرکے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کو فراموش کررہا ہے۔
امریکا نے تمام سرخ لکیریں عبور کرتے ہوئے خطے میں پاکستان پر بھارت کو ترجیح دی اور نئی دہلی کے ساتھ دفاعی اور تزویراتی تعلقات مستحکم کرنے کی پالیسی اپنائی۔
یہی وجہ ہے کہ امریکا جنوبی ایشیا میں بھارت کو اپنا اسٹریٹیجک پارٹنر خیال کرتا ہے۔ امریکا سے تعلقات میں پختگی کے بھارت اور اسرائیل کو بھی ایک دوسرے کے قریب کیا ہے اور یہ ثابت کیا ہے جو امریکا کا یار ہے وہ اسرائیل کا بھی یار ہے۔
بات چیت کے محور
بھارت ، اسرائیل گٹھ جوڑ کے بعد پاکستان کو قضیہ فلسطین کی حامی قوتوں کے ساتھ اپنے تعلقات مستحکم کرنا پڑے ہیں۔ پاکستان کے ترکی کے ساتھ پہلے ہی گرم جوشی پر مبنی تعلقات ہیں مگر ساتھ ساتھ اسلام آباد اور تہران میں بھی قضیہ فلسطین کی حمایت کے حوالے سے رابطے بڑھے ہیں۔
ترکی، ایران اور پاکستان سب قضیہ فلسطین کے بارے میں قریب قریب ایک ہی جیسی سوچ رکھتے ہیں اور تینوں ممالک عالمی فورمز پر فلسطینیوں کے حقوق کی کھل کر حمایت کرتے نظرآتے ہیں۔
پاکستانی سیاست میں اتارو چڑھاؤ کے باوجود پاکستانی قوم کے فلسطینیوں کے سے ہمدردی پر مبنی جذبات ہمیشہ عروج پر رہے ہیں۔ حال ہی میں پاکستان میں داخلی سطح پرآنے والی تبدیلی جس میں نواز شریف کو کرپشن کے الزامات کے باعث عدالت کی طرف سے نااہل قرار دیا گیا قضیہ فلسطین کی حامی جماعتوں کو ایک نیا حوصلہ دیا ہے۔
آبادی کے اعتبار سے پاکستان انڈونیشیا کے بعد دوسرا بڑا مسلمان ملک ہے۔ اس کی آبادی اب بیس کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے۔ اس کے علاوہ ترکی کے بعد اسلامی دنیا کی دوسری بڑی فوجی پاور اور عالم اسلام کی پہلی ایٹمی طاقت ہے۔ اس لیے پاکستان کا قضیہ فلسطین کے لیے حمایت کا وزن غیرمعمولی اہمیت کا حامل سمجھا جائے گا۔