صہیونی ریاست کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو قدم قدم پر یہ تاریخ ایسے گھناؤنے واقعات سے بھری پڑی ہے جن کا ذکربھی انسانی تہذیب وتمدن کے لیے باعث عار ہے۔
صہیونی ریاست کے مکروہ تاریخی واقعات کے نہ ختم ہونے والے سلسلے میں ایک مکروہ پالیسی مخالفین کو قاتلانہ حملوں میں شہید کرنا ہے۔ چنانچہ بزدل دشمن اپنے اس گھناؤنے کھیل کو آگے بڑھانے کے لیے ہمیشہ چھپ کر وار کرتا رہا ہے۔
ایسا ہی ایک گھناؤنا وار آج سے بیس سال قبل اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کے رہ نما خالد مشعل پر کیا گیا۔ خالد مشعل اس وقت اردن میں مقیم تھے۔ صہیونی ریاست کے بدنام زمانہ خفیہ ادارے ‘موساد‘ کے ایجنٹوں نے خالد مشعل کے کھانے میں زہرملانے میں کامیابی حاصل کی مگر خوش قسمتی سے مشعل پراس زہرقاتل کا زیادہ اثر نہ ہوا اور فوری علاج کے نتیجے میںان کی زندگی بچ گئی۔
ان دنوں خالد مشعل کو زہر دے کر شہید کیے جانے کی صہیونی سازش کو بیس سال ہوگئے ہیں اور صہیونی ذرائع ابلاغ بھی اس حوالے سے رپورٹس شائع کررہے ہیں۔ اسرائیلی ابلاغی حلقوں میں خالد مشعل کو شہید کیے جانے کی ناکام سازش کے چرچے ہیں۔ یقینا صہیونی ریاست کے سیاسی حلقوں اور خفیہ اداروں کو بھی اپنی اس خفت اور ناکامی کا احساس ہوگا۔
اسی حوالے سے اسرائیل کے ایک دفاعی تجزیہ نگار ’یواف لیمور‘ نے حال ہی میں اخبار ’یسرائیل ھیوم‘ میں ایک طویل مضمون لکھا ہے۔ مرکزاطلاعات فلسطین نے اسی مضمون کے بعض اقتباسات کا حوالہ دیتے ہوئے صہیونی ریاست کی بیس سال پرانی اس گھناؤنی سازش اور آج کے اسرائیلی منصوبوں پر روشنی ڈالی ہے۔
’خالد مشعل پرناکام قاتلانہ حملے کے بیس سال۔۔۔۔ ناکامیاں اور عبرت‘ کے عنوان سے لکھے گئے مضمون میں لکھا ہے کہ ’فرض کریں کہ خالد مشعل اپنی سالگرہ منا رہے ہیں تو یہ ان کی دوسری زندگی کی سالگرہ ہے۔ انہیں زہر دے کر شہید کیے جانے کی سازش ناکام ہونے کے بعد گویا انہیں ایک نئی زندگی ملی ہے اور یہ بیس سال ان کی نئی زندگی کے ہوسکتے ہیں‘۔
اسرائیلی تجزیہ نگار لکھتے ہیں کہ خالد مشعل کے بچ جانے کے تین بنیادی اسباب ہیں۔ پہلا سبب تو ان کی تقدیر کی جانب سے لکھی زندگی اور خوش قسمتی ہے۔ دوسرا یہ کہ موساد کے جن ایجنٹوں نے مشعل تک پہنچنے کی کوشش کی اور انہیں زہر دیا وہ پیشہ ور نہیں تھے۔ تیسرا یہ کہ انہیں مزید مہلت ملنا تھا۔
خالد مشعل کے زندہ بچ جانے کے بعد ان کی زندگی بچانے کے کئی عوامل ان کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ اس میں خالد مشعل کا گھر سے نکلنا، ان کے ساتھ بچوں کا ہونا، ان کی بیٹی کا بعد میں باہر آنا وغیرہ قاتلوں کے لیے پریشانی کا موجب بنا۔ پھر خالد مشعل کے ایک باڈی گارڈ کا ان کے ساتھ ہونا۔ قاتلوں کا تاخیر سے آنا، پھر فرار کی کوشش اور مقامی پولیس کے ہاتھوں پکڑا جانا یہ سب اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ جن لوگوں کو خالد مشعل کی زندگی ختم کرنے کا ٹاسک دیا گیا تھا وہ پیشہ ور نہیں تھے۔
اسرائیلی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ خالد مشعل کی جان لینے کی منظوری اسرائیل کی سیاسی قیادت کی طرف سے دی گئی تھی مگر یہ فیصلہ دباؤ اور عجلت میں کیا گیا تھا۔ اس وقت بھی اتفاق سے وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو تھے اور ان کی قیادت میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ بیت المقدس میں دو فدائی حملوں کے جواب میں انتقامی کارروائی کے طور پر خالد مشعل کو شہید کردیا جائے۔
اگرچہ سیاسی قیادت کے پاس حماس کی قیادت کے حوالے سے متعدد آپشن تھے۔ یعنی یہ ضروری نہیں کہ صرف مشعل ہی کو ہدف بنایا جانا ضروری تھا۔ تاہم جب نیتن یاھو کے سامنے مشعل کا نام آیا تو انہوں نے فوری طور پرانہیں قاتلانہ حملے میں شہید کرنے کی اجازت دے دی تھی۔ انہوں نےیہ بھی نہیں سوچا کہ مشعل اردن میں ہیں اگر ایسی کوئی بھی کارروائی کی سرزمین پر کی جاتی ہے تو اس کے دونوں ملکوں کے تعلقات پر کیا نتائج مرتب ہوں گے۔
ناکافی معلومات
اسرائیلی تجزیہ نگار یو آف لیمور کا کہنا ہے کہ جب خالد مشعل کو شہید کرنے کی کوشش ناکامی سے دوچار ہوئی تو اس معاملے کی تہہ تک جانے کے لیے تحقیقات کا آغاز کیا گیا۔ چونکہ اس فیصلے میں کئی وزراء اور اہم شخصیات کو شامل نہیں کیا گیا تھا اس لیے انہیں تو معلوم نہیں تھا کہ ہوا کیا ہے۔ کابینہ کے کئی وزراء جن میں انٹیلی جنس وزیر، آرمی چیف، شاباک کے چیف کو صرف اتنا معلوم تھا کہ مشعل کو ہدف بنایا گیا ہے مگر وہ اس کارروائی کی تفصیلات سے آگاہ نہیں تھے۔
خالد مشعل کو شہید کرنے کی ناکام سازش کے نتیجے میں اسرائیل کے بدنام زمانہ خفیہ ادارے موساد کے اندر بھی ایک نئی بحث چھڑ گئی۔ خفیہ ادارے کے عہدیداروں نے اس ناکامی کی ذمہ داری ایک دوسرے کے سرتھوپنا شروع کردیا اور یہ سلسلہ کئی ماہ تک جاری رہا۔ موساد نے بھی اپنے طور پر اس کارروائی کی ناکامی کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی قائم کی۔
لیمور کا کہنا ہے کہ خالد مشعل پر قاتلانہ حملے کی سازش نے صہیونی حکومت کو مفت کی بدنامی کی کھائی میں دھکیل دیا۔
یہ کیس حکومت اور خفیہ اداروں کے لیے سبق سیکھنے کا ایک ذریعہ بنا مگر لگتا ہے کہ حکومت آج تک اس سے سبق نہیں سیکھ رہی۔ دوسرے ملک کی سرزمین میں مشعل کو شہید کرنے کی ناکام کوشش اور مجرموں کے پکڑے جانے سے اسرائیل پوری دنیا میں بالخصوص عرب ممالک میں بری طرح بے نقاب ہوگیا۔ اس ناکام سازش کے نتیجے میں صہیونی ریاست کو الشیخ احمد یاسین جیسے حماس کے بانی رہ نماؤں سمیت حماس کے دسیوں کارکنوں کو رہا کرنا پڑا تھا۔