رواں ماہ ستمبر کے اوائل میں شمالی کوریا نے اعلان کیا کہ اس نے طاقت ور ہائیڈروجن بم کا کامیاب تجربہ کیا ہے جس کے نتیجے میں ریکٹر اسکیل پر 6.3 درجے شدت کا زلزلہ آیا۔ عالمی سطح پر اس تجربے کی غیرمعمولی مذمت کی گئی اور پیانگ یانگ پر کڑی پابندیاں عاید کرنے کا اعلان کیا گیا۔
امریکا کی جانب سے شمالی کوریا کو اس تجربے پر سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔ شمالی کوریا کے اس تجربے کے اعلان کے صحیح یا غلط ہونے کی تصدیق کسی غیرجانب دار ذریعے سے تو نہیں کی گئی تاہم شمالی کوریا ایسے ہی ایک تجربے کا دعویٰ 2016ء میں بھی کرچکا ہے۔ اگرشمالی کوریا کا یہ دعویٰ درست ہے کہ اس نے طاقت ور اور انتہائی تباہ کن ہائیڈرجن بم کا کامیاب تجربہ کیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہائیڈرجن بموں کی صلاحیت کے حامل ممالک کی تعداد 8 ہوگئی ہے، جن میں اسرائیل بھی شامل ہے۔
ہائیڈروجن بم کا پہلا تجربہ 1952ء میں کیا گیا جس کی طاقت سنہ 1945ء میں جاپان پر گرائے گئے امریکی ایٹم بموں کی نسبت 1000 گنا زیادہ بتائی جاتی ہے۔ دوسری عالم جنگ کے دوران جاپان پر گرائے گئے ایٹم بموں کے نتیجے میں دو لاکھ افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔
امریکی جریدہ’ ٹائمز‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق انسانی تباہی کے سامان تیار کرنے والے اور ایٹمی بلاؤں کا انتظام کرنے والوں نے بڑی تعداد میں ایسے جوہری، ایٹمی اور ہائیڈروجن بم تیار کر رکھے ہیں۔ ایسے ہی تباہ کن بم اسرائیل نے بھی تیار کر رکھے ہیں۔
اسرائیل کے ہائیڈروجن بموں کی تیاری اور ان کے ڈیزائن بنانے میں دو یہودیوں کا کلیدی کردار بتایا جاتا ہے۔ یہ دونوں یہودی سائنسدان آسٹریا کا اڈورڈ ٹیلر اور پولینڈ کا اسٹانیسلو اولام ہیں۔ انہوں نے پہلے تو امریکا کے لیے یہ بم تیار کیے مگر جلد ہی اسرائیل نے اڈورڈ ٹیلر اور اولام کو اسرائیل منتقل کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ سنہ 1979ء میں یہ دونوں بحراوقیانوس کے جنوب مشرق میں موجود تھے جہاں سے انہیں اسرائیل لایا گیا۔
شمالی کوریا نے اعلان کیا کہ اس نے ہائیڈروجن بم کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔ اس کے بعد شمالی کوریا کی مخالف تمام قوتیں حرکت میں آگئیں اور پیانگ یانگ پر پابندیاں عاید کرنا شروع کردی ہیں، مگر اسرائیل کے ہائی ڈروجن بم کے بارے میں بھی کیا دنیا کو معلوم ہے؟ کیا دنیا کو صہیونی ریاست کی ان ایٹمی بلاؤں کے خطرات کا اندازہ ہوگا جو اس وقت نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ پوری دنیا کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔ شمالی کوریا سے تو چند ایک ممالک کو خطرہ ہوسکتا ہے مگر صہیونی ریاست کی طرف سے پورے عالم اسلام بلکہ پوری دنیا کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔
دنیا بھر میں امن کے علم برداروں کے لیے یہ بات لمحہ فکریہ ہے کہ صہیونی ریاست کی طرف سے جوہری ہتھیاروں کی تیاری کا غیرقانونی سلسلہ جاری رہنے کے باوجود اس پر مجرمانہ خاموشی اختیار کی گئی ہے۔ پوری دنیا تسلیم کرتی ہے کہ صہیونی ریاست فلسطینیوں کے خلاف بدترین مظالم کا ارتکاب کررہی ہے۔
جنرل اسمبلی کے حالیہ اجلاس سے خطاب میں قطر کے امیر تمیم بن حمد آل ثانی نے بھی اسرائیل کے جوہری ہتھیاروں کے خطرات پر دنیا کی توجہ مبذول کرائی اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ دیگر ممالک کے جوہری ہتھیاروں کی چھان بین کرسکتی ہے تو اسرائیل کے خطرناک اور تباہ کن ہتھیاروں کی معائنہ کاری کیوں نہیں کی جاسکتی۔ آخر اسرائیل دنیا بھر کے لیے’مقدس گائے‘ کیوں ہے۔ اسرائیل کے ہائیڈروجن اور ایٹم بموں پر خاموشی خود امن عالم کے لیے خطرہ ہے۔
شمالی کوریا اور اسرائیل کے ساتھ ساتھ روس، فرانس، برطانیہ اور چین بھی ہائیڈروجن بموں کی تیاری کا اعلان کرچکے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے پاس بھی ایسے ہی ہتھیار موجود ہیں۔ دونوں پڑوی ممالک تیار بھی کررہے ہیں۔
یقینی طور پر تو نہیں کہا جا سکتا کہ آیا کس ملک کے پاس کتنے ہائیڈروجن بم تیار حالت میں موجود ہیں تاہم ماہرین اور میڈیا رپورٹس کے مطابق روس ہائیڈروجن بموں کی تعداد کے اعتبار سے سب سے آگے ہے جس کے پاس 7000 وار ہیڈ موجود ہیں۔ اس کے بعد امریکا 6800 جوہری وار ہیڈز کے ساتھ دوسرے، چین 300 کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے جب کہ امریکی سائنٹست یونین کے مطابق اسرائیل کے پاس 80 وار ہیڈ موجود ہیں۔
فزکس کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ہائیڈروجن بم وزن میں روایتی ایٹم بم سے ہلکا، آپریشنل کارروائی میں استعمال کرنا نسبتا آسان اور طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل پر فٹ کرنے میں دوسرے بموں کی نسبت زیادہ آسان ہے۔