فلسطینی قوم کو ورثے میں دیرینہ روایات کے ساتھ کئی ایسی سوغاتیں بھی ملی ہیں جو نہ صرف ان کی پہچان ہیں بلکہ فلسطینی کلچر کا حصہ بن چکی ہیں۔ انہی میں ’العین طبیخ‘ نامی ایک مربہ بھی ہے جو بالعموم پورے فلسطین بالخصوص مقبوضہ مغربی کنارے کے جنوبی شہر الخلیل کے ہر گھر کی پہچان سمجھا جاتا ہے۔
چونکہ ان دنوں انگور کا موسم ہے اور ستمبر کو انگوروں کے سیزن کا آخری مہینا سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے جاتے جاتے سیزن میں فلسطینی قوم نے انگوروں کو ایک دوسری شکل میں محفوظ بنانے کا گر بھی صدیوں سے اختیار کر رکھا ہے۔ انگور کے دانوں کو مربہ کی شکل میں تبدیل کردیا جاتا ہے جس کے بعد انہیں کئی مہینوں بلکہ پورے سال تک استعمال کیا جا سکتا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین نے فلسطینی ثقافت کی اس منفرد پہچان پر روشنی ڈالی ہے۔ مشرقی الخلیل کے علاقے البویرہ کے رہائشی 77 سالہ الحاج سلطان محمد المعروف ابو وجدی نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انگور کے دانوں سے مربہ کی تیاری الخلیل شہرکے ہر گھر کا حصہ سمجھی جاتی ہے۔ یہ ایک ایسی سوغات ہے جسے نہ صرف مقامی فلسطینی اپنے استعمال کے لیے تیار کرتے ہیں بلکہ بیرون ملک بھی تحائف کی شکل میں بھیجا جاتا ہے۔
مقامی سطح پر انگور کے دانوں سے تیار کردہ مربے کو ’ العین طبیخ‘ کہا جاتا ہے۔ بعض لوگ اسے ’دبس‘ بھی کہتے ہیں۔
الحاج محمد سلطان کا کہنا ہے کہ تمام اقسام کے انگوروں سے مربہ تیار نہیں کیا جا سکتا۔
زمانہ قدیم کی ثقافت
الحاج سلطان محمد نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ سفید رنگ کے انگور کے دانوں کو صاف کرنے کے بعد ایک برتن میں انہیں دھویا جاتا ہے۔ بعد ازاں انہیں دھوپ میں رکھ کر خشک کیا جاتا ہے۔
ستمبر کے مہینے میں انگور اپنے اختتام کی طرف بڑھتا ہے۔ سورج کی گرمی سے اس کے دانوں کا رنگ سفید سے زردی مائل ہونا شروع ہوجات ہے۔ لوگ زرد رنگ کے دانوں کو انگور کی شکل میں کھانے کے بجائے مربہ تیار کرنے کے لیے خرید کرتے ہیں۔
فلسطینی شہریوں کا کہنا ہے کہ عین الطبیخ شامی روایت سمجھی جاتی ہے جب کہ بعض کا خیال ہے کہ یہ یہ مربہ مصر کے فراعنہ کے دور میں بھی بنایا جاتا تھا اور فراعنہ ہی سے یہ روایت فلسطین میں پہنچی ہے۔ البتہ بعض لوگ اس مربہ کو فاطمی عہد کی یادگار قرار دیتے ہیں۔ اس مربہ کو تیار کرنے کے بعد گھروں میں رکھا جاتا ہے اور سردیوں کی غذاؤں میں زیتون کے تیل اور انگور کے مربہ کو خاص اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ چاہے یہ روایت کتنی پرانی کیوں نہ ہو بہر حال آج بھی فلسطینی شہری اسے اپنی ثقافت کا حصہ قرار دیتے ہیں۔
الحاج ابو وجدی کا کہنا ہے کہ ہم سال ہا سال سے یہ سوغات تیار کرتے ہیں۔ مربہ تیار کرنے کے بعد اسے مٹی کے برتن میں محفوظ کرلیا جاتا ہے۔ مربہ کو مٹی کے برتن میں ڈالنے کے بعد اس پرتھوڑا سا زیتون کا تیل چھڑکا جاتا ہے۔ اس کے بعد اسے سال بھر کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
تیاری کا طریقہ
دلچسپ امر انگور کے مربہ کی تیاری کا طریقہ کار ہے۔ اس حوالے سے بھی مرکزاطلاعات فلسطین نے الحاج ابو وجدی ہی سے بات کی۔
انہوں نے کہا کہ انگور کے دانوں سے مربہ کی تیاری بہت احتیاط کا کام ہے۔ اگرچہ اس کا طریقہ زیادہ پچیدہ نہیں تاہم اس کی تیاری کے لیے ضروری ہے کہ ایک خاص قسم کا انگور لیا جائے۔ فلسطین میں عموما الجندلی اور الدابوقی انگوروں سے مربہ تیار کیا جاتا ہے۔ یہ سفید رنگ کے انگور ہیں۔
مربہ تیار کرنے سے قبل انگور کے دانے گچھوں سے الگ الگ کرکے چھانٹ لیں۔ پھر انہیں اچھی طرح دھوئیں تاکہ ان پر لگا گردو غبار اور آلودگی ختم ہوجائے۔ اس کے بعد ان دانوں کو اس وقت تک چھوڑ دیں جب تک ان پرلگا پانی مکمل طورپرخشک نہیں ہوجاتا۔
جب انگور کے دانوں کا پانی خشک ہوجائے تو اسے ایک دیگچے میں ڈال کر لکڑی کی آگ پر پکنے کے لیے رکھ دیں۔ یہ یاد رکھیں کہ اس میں پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں ڈالنا کیونکہ انگور کے اندر سے اپنا پانی خارج ہوگا۔
ابو وجدی کا کہنا ہے کہ اگر مربہ تیار کرتے وقت آپ اس میں پانی ڈالیں گے تو اس سے مربہ خراب ہوجائے گا۔
پہلے تیز آنچ پر پکانے کے بعد اسے ہلکی آنچ پر چھوڑ ایک یا دو گھنٹے تک چمے کے ساتھ ہلائیں۔ جب انگور اپنا پورا پانی چھوڑ دے اور ایک شیرہ کی شکل اختیار کرے تو اسےمٹی یا شیشے کے برتن میں ڈال کر کئی ماہ یا سال تک محفوظ کرلیں۔
الخلیل شہر کے ایوان صنعت وتجارت کے سابق رکن الحاج فضل عابدین کا کہنا ہے کہ ’العین الطبیخ‘ نامی مربہ الخلیل کے شہریوں کو ان کے اجداد سے ورثے میں ملا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ صرف العین الطبیخ ہی نہیں بلکہ مقامی سطح پر الدبس، الملبن، الزبیب، القطین اور کئی دوسری قدرتی سوغات اور مربے گھروں میں تیار کیے جاتے ہیں۔