اسرائیل کی ایک مجسٹریٹ عدالت میں انسانی حقوق کے مندوبین اور ایک شہید فلسطینی لڑکی کے وکلاء نے درخواست دائر کی ہے جس میں عدالت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ شہیدہ کو وحشیانہ انداز میں گولیاں مارنے اور اسے بے دردی سے شہید کیے جانے کی دوبارہ تحقیقات کا حکم جاری کرے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق شہیدہ ھدیل الھشلمون کے کیس کی پیروی کرنے والی ان کی خاتون وکیل نائلہ عطیہ نے بتایا کہ انہوں نے بیت المقدس کی ایک مجسٹریٹ عدالت میں درخواست دی ہے جس میں عدالت سے مطالبہ کیاگیا ہے کہ وہ ان کی موکلہ کے وحشیانہ قتل کی دوبارہ تحقیقات کا حکم جاری کرے۔
خیال رہے کہ ھدیل الشلمون کو اسرائیلی فوج نے 22 ستمبر 2015ء کو بیت المقدس میں گولیاں مار کر شہید کر دیا تھا۔
نائلہ ھدیل کا کہنا ہے کہ صہیونی فوج نے ان کی موکلہ کو نہایت بے رحمی کے ساتھ بغیر کسی وجہ کے شہید کیا تھا۔ اس کے پاس ایسی کوئی خطرناک چیز یا ہتھیار نہیں تھا جو صہیونی فوجیوں کی زندگی کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتا۔
نائلہ نے بتایا کہ انہوں نے اسرائیل کی مجسٹریٹ عدالت میں دائر کردہ درخواست میں فواز ابو ارمیلہ اور دو دیگر اہم گواہوں کے بیانات شامل کئے ہیں۔ گواہوں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوجیوں میں سے ایک نے ھدیل کی ٹانگ میں گولی ماری اور وہ زمین پر گر گئی۔ کچھ دیر ایک دوسرے فوجی نے اس کے پورے جسم کو گولیوں سے بھون ڈالا۔
گولیاں لگنے سے اس کا جسم بری طرح ٹوٹ پھوٹ گیا۔ وہ کئی گھنٹے تک سڑک پر بے یارو مدد گار پڑی رہی اور اس کا خون بہتا رہا۔ ہلال احمر اور دوسرے فلسطینی امدادی اداروں کے کارکن شدید زخمی ھدیل الھشلمون کی طرف بڑھے مگر قابض فوج نے بربریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں الھشلمون کی مدد کرنے سے روک دیا۔
گواہوں کا کہنا ہے کہ صہیونی فوجیوں نے ھدیل الھشلمون کو بغیر کسی جرم کے قتل کیا ہے۔