یکشنبه 17/نوامبر/2024

رسمیہ عودہ اسرائیلی قید سے امریکی نا انصافی تک!

ہفتہ 23-ستمبر-2017

فلسطینی قوم کے بیرون ملک جدو جہد کرنے اور صہیونی ریاست کے تعاقب کا مقابلہ کرنے والوں میں ایک معتبرنام رسمیہ یوسف عودہ کا ہے جسے تاریخ تحریک آزادی فلسطین کےباب میں ہمیشہ ایک روشن استعارے کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ 70 سالہ رسمیہ یوسف عودہ صہیونی ریاست کے استعماری نظام کے خلاف مزاحمت کی ایک زندہ علامت ہیں جن کے قضیے کی عمر ان کی اپنی عمر کے برابر ہے۔ انہیں جس بدسلوکی کے ساتھ امریکا سے صہیونیوں کی خوش نودی کے لیے بے دخل کیا گیا اس نے امریکا کی صہیونی طر داری، نسل پرستی کی حمایت اور مظلوم فلسطینیوں کی داد رسی کے بجائے ظالم کا ساتھ دینے کی مجرمانہ پالیسی کو بے نقاب کردیا ہے۔

مرکزاطلاعات فلسطین نے اس عظیم فلسطینی مجاھدہ کے حالات زندگی پر مختصر رپورٹ میں روشنی ڈالی ہے۔

رسمیہ یوسف کو شہرت اس وقت حاصل ہوئی تھی جب آج سے کئی عشرے قبل اسرائیلی فوج نے اسے گرفتار کیا اور ایک مزاحمتی حملے کے الزام میں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ تاہم وہ ایک معاہدے کے تحت رہا ہونے کے بعد اردن جلا وطن کردی گئیں۔ بعد ازاں وہ امریکا گئیں اور انہوں نے تمام قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے امریکی شہریت بھی حاصل کی تھی۔ حال ہی میں امریکا نے اسے ملک سے بے دخل کردیا جس کے بعد وہ ایک بار پھر اردن کی سرزمین پر ہیں۔

ابتدائی زندگی

رسمیہ یوسف کو رسیمیہ ستیف اور رسمیہ جوزف کے ناموں سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ وہ فلسطین کے اس علاقے میں پیدا ہوئیں جس پرسنہ 1948ء میں صہیونی ریاست نے غاصبانہ قبضہ کیا۔ ان کا آئی شہر لفتا تھا جہاں انہوں نے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں مڈل اور ہائی اسکول میں تعلیم کے لیے انہیں رام اللہ کے ایک گرلز اسکول میں داخل کیا گیا۔

یوسف عودہ سنہ 1966ء میں حکومتی ٹیچر انسٹیٹیوٹ سے فارغ التحصل ہوئیں اور پرائمری اسکول عین بیرود میں سائنس اور حساب کی ایک استانی کے طور کام شروع کیا۔

رسمیہ عودہ ایک مجاھدہ کے روپ میں

کسی بھی دوسرے فلسطینی کی طرح رسمیہ یوسف عودہ نے بھی صہیونی ریاست کا جابرانہ قبضہ مسترد کرتے ہوئے اس کے خلاف پوری قوت کےساتھ نبرد آز ما ہونے کا فیصلہ کیا۔ ایک باہمت ، نڈر اور دشمن کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر بات کرنے کی جرات رکھنے والی اس مجاھدہ نے عزیمت کا راستہ چنا اور تنظیم آزادی فلسطین کے مزاحمتی ونگ میں شامل ہوگئیں۔

سنہ 1969ء میں رسمیہ عودہ اور عائشہ عودہ نے مل کر ایک فدائی حملہ کیا۔ یہ حملہ بیت المقدس کے قلب میں واقع ’محانیہ یہودا‘ بازار میں کیا گیا۔ فدائی حملے میں دو  صہیونی جنہم واصل اور 9 زخمی ہوگئے۔

اسرائیلی فوج نے فدائی حملے میں ملوث ہونے کے الزام میں رسمیہ عوعدہ کو حراست میں لیا اور ان پر مقدمہ چلایا گیا۔ سنہ 1970ء میں اسرائیلی فوجی عدالت نے انہیں عمرقید کی سزا سنائی،  تاہم عوامی محاذ برائے آزادی فلسطین اور اسرائیل کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے ایک معاہدے کے بعد انہیں اس شرط پر رہا کیا گیا کہ وہ فلسطین میں نہیں رہیں گی بلکہ وہ اردن میں جلا وطن کے طور پر رہیں گی۔

اسرائیل اور عوامی محاذ کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کو ’النورس‘  کا نام دیا گیا۔ وہ فلسطین سے اردن، وہاں سے لبنان اور وہاں سے امریکا روانہ ہوگئیں۔ سنہ 1995ء میں انہوں نے امریکا میں شہریت کے لیے درخواست دی۔

امریکا آمد سے بے دخلی تک

امریکا میں آمد کے بعد رسمیہ یوسف عودہ نے امریکی شہریت کے درخواست دی جو کچھ عرصے کے بعد منظور کرلی گئی۔ انہوں نے امریکا میں قیام کے دوران ’امریکن عرب ایکشن نیٹ ورک‘ کے ساتھ کام کرنا شروع کردیا اورریاست شیکاگو میں تنظیم کے ریجنل ڈائریکٹر بنا دی گئیں۔

نومبر 2014ء میں امریکا کی عدالت میں ان کی شہریت کو غیرقانونی قرار دینے کی ایک درخواست دایر کی گئی جس میں دعویٰ کیا گیا کہ رسمیہ عودہ نے شہریت کے حصول کے لیے غیرقانونی طریقہ اختیار کیا تھا۔ اس نے اپنی اس حقیقت کو مخفی رکھا کہ وہ اسرائیل میں متعدد یہودیوں کو ہلاک اور زخمی کرنے میں ملوث رہ چکی ہیں۔ عدالت نے انہیں غیرقانونی طور پر شہریت حاصل کرنے کا قصور وار قرار دے کر جیل بھیج دیا۔  تاہم کیس کو اپیل کورٹ میں چیلنج کردیا گیا۔ فروری 2016ء کو امریکی عدالت نے اس کی ملک بدری کا فیصلہ سنایا اور ساتھ ہی یہ جواز فراہم کیا کہ چونکہ رسمیہ نے امریکا میں شہریت کے حصول کے لیے پیش کردہ ریکارڈ میں اسرائیلی جیل میں قید رہنے کا کوئی تذکرہ شامل نہیں کیا تھا اس لیے اسے بھی عدالت میں اپنا موقف بیان کرنے کی اجازت نہیں۔

عودہ اسرائیلیوں کے قتل میں ملوث ہونے سے انکار کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان پر اقبال جرم کے لیے اسرائیلی فوج نے وحشیانہ تشدد کیا تھا اور تشدد کے ذریعے انہیں اقبال جرم کرنے پر مجبورکیا گیا۔

اپریل 2017ء میں رسمیہ عودہ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ نہیں جانتیں کہ اب انہیں کہاں جانا ہے۔ انہوں نے ملک بدری کے امریکی عدالتی فیصلے کو بدترین ظلم قرار دیا اور کہا کہ میں ایک ایسے ملک کو چھوڑ کر جا رہی ہوں جس سے میری چوبیس سال کی یادیں وابستہ ہیں۔

اگست 2017ء کو میشیگن ریاست کے ڈیٹرویٹ سینٹر کے باہر قائم عدالت کے سامنے بڑی تعداد میں سماجی کارکنوں نے رسمیہ کے حق اور اس کی ملک بدری کے خلاف احتجاج کیا۔

جمعرات اکیس ستمبر کو انہیں امریکا سے عملا بے دخل کردیا گیا جس کے بعد وہ امریکا سے اردن پہنچی ہیں۔

سابق فلسطینی اسیرہ رسمیہ عودہ امریکی عدالت کے فیصلے پر بہت زیادہ برہم اور دکھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکا جو انسانی حقوق، جمہوری آزادیوں اور انسانی حقوق کی بات کرتا ہے اس کے ساتھ انصاف نہیں کرپایا بلکہ اس کے ساتھ سراسر ظلم ہوا ہے۔ اسے عدالت میں اپنے حق میں ایک لفظ بھی نہیں بولنے دیا گیا۔

مختصر لنک:

کاپی