فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے میں سنہ1994ء کے معاہدہ اوسلو کے بعد قائم نام نہاد فلسطینی اتھارٹی کو دباؤ میں رکھنے اور بلیک میل کرنے کے لیے قائم کردہ ’سول ایڈمنشٹریشن‘ نے براہ راست فلسطینی شخصیات سے رابطے شروع کر دیے ہیں۔
مرکزاطلاعات فلسطین نے ایک رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے انکشاف کیا ہے کہ صہیونی ریاست کی غرب اردن کے علاقوں میں قائم کردہ متوازی انتظامیہ ’سول ایڈمنسٹریشن‘ کے حکام فلسطینی اتھارٹی کے سیکیورٹی اور حکومتی عہدیداروں سے روابط کے بجائے براہ راست سرکردہ فلسطینی شخصیات کے ساتھ رابطے کررہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق صہیونی سول ایڈمنسٹریشن کی جانب سے سرکردہ فلسطینی شخصیات کے ساتھ کیے گئے رابطوں میں ان سے تعاون کی اپیل کی ہے۔ صہیونی انتظامیہ کی طرف سے فلسطینی شہریوں کو کہا گیا ہے کہ وہ غرب اردن اور سنہ 1948ء کے دوران قبضے میں لیے گئے فلسطینی علاقوں میں آمد ورفت کے لیے اتھارٹی کے حکام سے رابطے کے بجائے براہ راست ان سے رابطہ کریں۔ اس کے علاوہ کسی بھی مشکوک فلسطینی مزاحمت کار کے بارے میں فلسطینی اتھارٹی کی پولیس کو رپورٹ کرنے کے بجائے صہیونی انتظامیہ کو براہ راست آگاہ کیا جائے۔
خیال رہے کہ صہیونی ریاست نے فلسطینی اتھارٹی کو دباؤ میں لانے کے لیے کئی طرح کے حربے آمازنے کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔ نام نہاد سیکیورٹی تعاون کی آڑ میں فلسطینی اتھارٹی کی پولیس اسرائیلی فوج کی معاون اور سہولت کا کردار ادا کررہی ہے۔ دوسری جانب اسرائیلی فوج کے زیرانتظام ’سول انتظامیہ‘ نامی ادارے کو فلسطینی اتھارٹی کے پاؤں تلے سے بساط کھینچنے اور رام اللہ اتھارٹی کی بلیک میلنگ کے لیے ایک حربے اور لاٹھی کے طور پر استعمال کرتی رہی ہے۔ تاکہ فلسطینی اتھارٹی کے زیرکنٹرول بقیہ فلسطینی علاقوں پربھی صہیونی ریاست کا مکمل تسلط قائم کیا جا سکے۔
غرب اردن کے علاقوں میں فوج کی معاونت کار ’سول ایڈمنسٹریشن‘ نامی شعبے کے قیام کا اصل مقصد تو یہ تھا کہ عرب شہروں میں جہاں کہیں اراضی کا کوئی مسئلہ بنے، فلسطینیوں کے مکانات کی تعمیر یا معاملہ ہو یا ایسا کوئی بھی مسئلہ جو دونوں طرف کی انتظامیہ کے لیے اہمیت کا حامل ہو اسے مل کراتفاق رائے سے حل کرنا تھا مگر عملا یہ ادارہ صہیونی فوج کےہاتھ میں فلسطینی اتھارٹی کو بلیک میل کرنے اور اسے دباؤ میں رکھنے کا منظم حربہ ہے۔
فلسطینی اتھارٹی کی مجرمانہ غفلت اور ’دوستانہ خاموشی‘ کے باعث صہیونی سول ایڈمنسٹریشن زیادہ فلسطینیوں کے سروں پر سوار ہوگیا ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں گذرتا جب اس نام نہاد ادارے کی طرف سے فلسطینیوں کی املاک پرغاصبانہ قبضے، مکانات مسماری ، فلسطینیوں کے مکانات کی تعمیر پرپابندی اور یہودی آباد کاروں کے لیے توسیع پسندی کی سہولت کا کوئی نا کوئی اقدام نہ کیا جاتا ہو۔
تازہ انکشاف سے اندازہ ہوتا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان روابط محدود ہوگئے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ اسرائیل کو بھی فلسطینی اتھارٹی اور اس کے اداروں پر اعتماد نہیں رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے مذموم عزائم کو آگے بڑھانے کے لیے براہ راست فلسطینی شہریوں سے تعاون لینے کی راہ پر چلی پڑی ہے۔