فلسطینی وزیر برائے القدس امور نے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل ایک سازش کے تحت پرفضاء اور سیاحتی اہمیت کےحامل ’الوجہ‘ گاؤں کو مقبوضہ بیت المقدس سے الگ تھلگ کرنا چاہتا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق فلسطینی وزیر برائے القدس امور عدنان الحسینی نے ایک بیان میں بتایا کہ اسرائیل ’الوجہ‘ قصبے کو مقبوضہ بیت المقدس سے الگ تھلگ کرنے کی سازش کررہا ہے۔ یہ قصبہ شہر کے جنوب میں واقع ہے اور جغرافیائی طور پر مشرقی بیت المقدس کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔
الحسینی نے بتایا کہ صہیونی حکام نے ایک منصوبہ تیار کیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت الوجہ گاؤں میں یہودیوں کے لیے کالونیاں اور فوج کے لیے چھاؤنیاں قائم کرکے اسے شہر سے الگ تھلگ کرنا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ صہیونی حکام نے الوجہ گاؤں کے ایک طرف عین جویزہ کے قریب سے اسے بند کردیا ہے۔ یہاں سے فلسطینیوں کے قصبے میں آمد ورفت بند کردی ہے۔ فلسطینی مجبور ہو کر ’ھار گیلو‘ نامی کالونی کی طرف سے داخل ہو رہے ہیں۔
اسرائیلی انتظامیہ نے مقامی آبادی پر دباؤ میں اضافہ کردیا ہے۔ یہاں پر یہودیوں کے لیے تعمیرات اور فلسطینیوں کے گھروں کی مسماری میں بھی اضافہ کردیا گیا ہے۔ اسرائیلی فوج نے قصبے کے اندر بھی جگہ جگہ چیک پوسٹیں قائم کرکے فلسطینیوں کا جینا دو بھر کر دیا ہے۔
صہیونی حکام کی طرف سے پابندیوں کے بعد ھارگیلو کالونی واحد راستہ بچا ہے جہاں سے فلسطینی گاؤں میں داخل ہوسکتے ہیں یا باہر آسکتے ہیں۔ یو اسرائیلی فوج نے غیراعلانیہ طور پر اس گاؤں کو بیت المقدس کے دوسرے مقامات سے الگ تھلگ کر دیا ہے۔
فلسطینی وزیر کا کہنا ہے کہ صہیونی حکومت دیگر فلسطینی علاقوں کی طرف الوجہ قصبے کے فلسطینیوں کے خلاف بھی ظالمانہ نسل پرستانہ طرز عمل اپنا رکھا ہے۔ انہیں الگ تھلگ کرنے اور تنہا کرنے کے لیے گھیرا کیا جا رہا ہے۔ حتمی طورپر صہیونی ریاست فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کررہی ہے۔
انہوں نےبتایا کہ صہیونی فوج نے بیت المقدس میں فلسطینیوں کے 200 مکانات مسمار کرنے کا فیصلہ بحال کرلیا ہے۔ چند سال قبل مکانات مسماری کا اعلان کیا گیا تھا مگر اس پرعمل درآمد روک دیا گیا تھا۔