اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے انکشاف کیا ہے کہ فوج داری کیسز کے تحت جیلوں میں قید فلسطینیوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھنے کے لیے داخلی سلامتی کے وزیر گیلاد اردان نئے قوانین تیار کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔
اسرائیل کے کثیرالاشاعت عبرانی اخبار ’ہارٹز‘ نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ داخلی سلامتی کے وزیر گیلاد اردان جیلوں میں فوج داری نوعیت کے مقدمات کے تحت قید فلسطینیوں کے ساتھ مزید سخت رویہ اپنانے کے لیے قانون سازی کا ارادہ رکھتے ہیں۔
عبرانی اخبار کے مطابق داخلی سلامتی کے وزیر دراصل سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ’الیاکیم روبنچائن‘ کے اس فیصلے پر عمل درآمد سے فرار اختیار کرنا چاہتے ہیں جس کے تحت انہوں نے حکم دیا تھا کہ تمام جیلوں میں قید فلسطینیوں کو کم سے کم چار سے ساڑھے چار میٹر کے کمرے دیے جائیں۔ اس وقت بیشتر قیدیوں کو تین میٹر یا اس سے کم جگہ پر قید کیا گیا ہے۔
سبکدوش ہونے والے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے دائر کردہ ایک درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے انتظامیہ کو حکم دیا تھا کہ وہ جیلوں میں قیدیوں کو عالمی معیار کے مطابق کم کھلی جگہیں اور دیگر سہولیات مہیا کرے۔ اس ضمن میں اگلے ایک سال میں کم سے کم چار مربع میٹر اور ڈیڑھ سال میں ساڑھے چار مربع میٹر کمروں کی گنجائش پیدا کی جائے۔۔
اخباری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ داخلی سلامتی کے وزیر گیلاد اردان یہ چاہتے ہیں کہ فوج داری کیسز کے تحت قید فلسطینیوں کے کمروں میں توسیع نہ کی جائے اور سابق چیف جسٹس کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے صرف غیر فوج داری مقدمات کے تحت قید فلسطینیوں کے قید خانوں میں توسیع کی جائے۔
سابق چیف جسٹس روبنچائن کا کہنا ہے کہ بنیادی انسانی حقوق کے تناظر میں کسی بھی قیدی کو تین کئی سال تک صرف تین میٹر کی بند جگہ پر رکھنا درست نہیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی قیدی روزانہ، ہرہفتے، ہرماہ اور ہر سال عوفر جیل کے 2.2 میٹر، مجد کے 2.4 میٹر، اسی طرح نیتزن، رامون اور کیتزیعوت کے 2.4 میٹر کے قید خانے میں بند رہے۔