بدھ 13 ستمبر 2017ء فلسطینی تاریخ کے مکروہ ایام میں سے ایک ہے۔ آج سے 24 سال پیشتر اسرائیل کے ساتھ نام نہاد ’اوسلو‘ معاہدہ اسی روز طے پایا۔ اوسلو معاہدہ محض ایک دھوکہ، فراڈ اور سراب تھا جس نے فلسطینی قوم کو یہودی آباد کاری کے سوا کچھ نہیں دیا۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق امریکا اور مغرب اور صہیونی سازشوں کے گٹھ جوڑ کے تحت اوسلو معاہدہ 13 ستمبر 1993ء کو ناروے کے شہر اوسلو میں طے پایا۔ اس معاہدے کے تحت مقبوضہ مغربی کنارے میں نام نہاد فلسطینی اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس اتھارٹی کو محدود پیمانے پر سیکیورٹی کے اختیارات دیے گئے مگر یہ سیکیورٹی فورسز اس وقت فلسطینی قوم کے بجائے صہیونی ریاست کے محافظوں کا کردار ادا کررہی ہے۔ اس سمجھوتے نے فلسطینی قوم کو یہودی آباد کاری کا ‘تحفہ‘ فلسطینیوں کے درمیان مزید پھوٹ اور فلسطین کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کے اسباب مہیا کیے۔
نام نہاد معاہدہ اوسلو کے 24 سال بعد فلسطین پروگریسو موومنٹ کے سیکرٹری جنرل مصطفیٰ البرغوثی یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہیں کہ یہ معاہدہ فلسطینی قوم کے ساتھ ایک مذاق تھا۔ اس سمجھوتے کے تحت فلسطینیوں کو ان کے حقوق دینے کی بات نہیں بلکہ فلسطینیوں سے اسرائیل کا تحفظ کرانے کی راہ ہموار کی گئی۔ ایک غلط بنیاد پر نام نہاد فلسطینی پولیس قائم کی گئی جس کا کام فلسطینی قوم کا تحفظ نہیں بلکہ فلسطینیوں کی جان ومال کی قیمت پر صہیونی ریاست کا تحفظ ٹھہرا۔
فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے بار بار اوسلو معاہدے کی شرائط پر عمل درآمد نہ کیے جانے پر احتجاج کیا گیا۔ فلسطینی اتھارٹی کے مطالبات کے جواب میں اسرائیلی وزیر دفاع آوی گیڈور لائبرمین نے سیکیورٹی امور کے سوا باقی تمام شعبوں میں تعلقات ختم کردیے۔
فلسطینی دانشور پروفیسر ڈاکٹر عبدالستار قاسم کا کہنا ہے کہ اوسلو معاہدے کے نتیجے میں تشکیل پانے والی نام نہاد سیکیورٹی فورسز فلسطینی قوم کے لیے ایک بڑی مصیبت ہے۔ اس معاہدے نے فلسطینی سیکیورٹی اداروں کو صہیونی ریاست کے محافظوں میں تبدیل کردیا۔ کوئی یہ تصور کرسکتا ہے کہ اوسلو معاہدے کے تحت فلسطینی قوم کو کس طرح بے وقوف بنایا گیا۔ فلسطینیوں کو سبز باغ دکھا کرانہیں صہیونیوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا۔ نام نہاد معاہدے کے ذریعے فلسطینیوں کی آزادی کی تحریک کو دبا کر اسرائیل کو تحفظ دینے کی راہ ہموار کی گئی۔
فلسطینی تجزیہ نگار عمید دویکات نے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ’فیس بک‘ کے اپنے صفحے پر لکھا کہ اوسلو معاہدہ پانچ سال کے لیے قائم کیا گیا مگر اب اسے گذرے 24 سال کا عرصہ بیت گیا ہے۔ اسرائیل نے اس معاہدے کے ان تمام پہلوؤں کو اپنا رکھا جو اس کے مفاد میں ہیں اور جو فلسطینیوں کے مفاد میں تھے ان میں سے کسی شق پربالکل عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ اس طرح یہ نام نہاد معاہدہ فلسطینی قوم کے لیے وبال اور اسرائیل کے لیے نعمت ثابت ہوا۔
انہوں نے لکھا کہ معاہدہ اوسلو کے تحت فلسطینی قیدیوں کو رہا کرنے، فلسطین میں یہودی آباد کاری روکنے اور مرحلہ وار فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے اقدامات کی یقین دہانی کرائی گئی تھی، مگر چھ ہزار فلسطینی صہیونی زندانوں میں قید، فلسطینی اراضی کو شکار کی طرح نوچا جا رہا ہے،القدس کو یہودیانے کا عمل جاری، قبلہ اول پر یہودیوں کی یلغار بدستور قائم اور اس کے ساتھ معاہدہ اوسلو بھی موجود ہے، کیا اس سے بڑھ کر فلسطینی قوم سے فراڈ کا اور کوئی طریقہ ہے۔