پلاسٹک سے تیار کردہ چیزوں کو ماہرین صحت ویسے ہی انسانی صحت اور ماحولیات کے لیے نقصان دہ قرار دیتے ہیں۔ حال ہی ہیں ایک نئی رپورٹ میں پلاسٹک کی باقیات کے لرزہ خیز نتائج سامنے لائے گئے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں پلاسٹک کی باقیات اور ذرات 83 فی صد پانی کی آلودگی کا موجب ہیں۔
امریکا میں قائم ’یورپ گروپ برائے جرنلسٹ سروے‘ کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکا میں نالیوں میں گرنے والے پلاسٹک کے ذررات 94 فی صد پانی کو آلودہ کرتے ہیں جب کہ یورپ میں یہ شرح 72 فی صد ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ماضی میں بھی پلاسٹک سے پانی کی غیرمعمولی آلودگی کے حوالے سے رپورٹس منظرعام پرآچکی ہیں۔
امریکی یونیورسٹی مینیسوٹا وابستہ ماہرین مرد، بچے اور خواتین سب امریکی کانگریس کی عمارت میں پلاسٹک کے گلاسوں میں پانی پیتے ہیں۔ یہ پانی بحیرہ وکٹوریا سے لیا جاتا ہے۔
اس پانی کے معائنے سے پتا چلتا ہے کہ پانی میں 80 فی پلاسٹک کے باریک ذرات کے اثرات موجود ہوتے ہیں۔ یہ تحقیق پانچ براعظموں میں کی گئی ہے۔
ماحولیات کے دفاع کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم کا کہنا ہے کہ پلاسٹک کے ذرات غیرمعمولی حد تک پوری دنیا میں پینے کے پانی کو متاثر کرتے ہیں۔ ان میں بیشتر نظر نہ آنے والے ذرات ہوتے ہیں۔
بنگلہ دیش کے نوبل انعام یافتہ سائنسدان محمد یونس نے 2006ء میں کہا تھا کہ ہمیں پانی کے استعمال سے قبل اس میں پائے جانے والے پلاسٹک کے ذرات کا جائزہ لینا چاہیے۔
اپنی ایک طویل رپورٹ میں ڈاکٹر یونس نے کہا تھا کہ پلاسٹک ہمارے لیے اب روز مرہ زندگی ہی نہیں بلکہ خوراک کا حصہ بن چکا ہے۔ کیا ہمارے پاس پلاسٹک کے مضر صحت ذرات سے پاک پانی پینے کا کوئی ذریعہ ہوسکتا ہے۔