پنج شنبه 01/می/2025

الخلیل کے تاریخی مقامات صہیونی قبضہ مافیا کے نرغے میں؟

بدھ 6-ستمبر-2017

صہیونی نسل پرستانہ اور من گھڑت توراتی وتلمودی پروپیگنڈے کی آڑ میں فلسطین کے تاریخی اسلامی وعرب شہر الخلیل میں یہودیوں کی آباد کاری کا سلسلہ شروع ہوا۔ دنیا کے دوسرے ملکوں سے لائے گئے یہودیوں کو الخلیل شہر کی تاریخی عمارتوں پر قابض بنایا گیا اور یہ دعویٰ کیا گیا یہ تمام عمارتیں ماضی میں صہیونیوں اور یہودیوں کی ملکیت رہ چکی ہیں۔

’کریات اربع‘
الخلیل شہر میں یہودی توسیع پسندی کی جڑیں سنہ 1968ء میں اس وقت اگنا شروع ہوئیں جب یہودیوں کے ایک گروپ نے الخلیل شہر میں قائم ’دریائے خالد ہوٹل‘ جسے یہودیون نے اب باراک ہوٹل کا نام دیا میں چند ہفتے گذارے۔ ہوٹل کے مالک آل القواسمی نے اس ہوٹل میں یہودی گروپ کے قیام پر احتجاج کیا تو وہ وہاں سے نکل کر اس کے قریب ہی ایک عمارت کی تعمیر میں مصروف ہوگئے۔ یہ عمارت الخلیل شہر میں اسرائیلی فوجی ہیڈ کواٹر سے قریب واقع ہے۔

سنہ 1969ء میں یہودیوں نے مشرقی الخلیل کے پہاڑی علاقے پر قبضہ کیا۔  غاصب صہیونیوں کی مغصوبہ اراضی کے قریب وادی الغروز، البویرہ، البقعہ جیسے اہم تاریخی مقامات واقع ہیں جن کا کل رقبہ 4940 دونم بنتا ہے۔ یہودیوں نے اس علاقے پر اس وقت کی اسرائیل کی حکمران سیاسی جماعت ’لیبر پارٹی‘ کی معاونت اور اشیرباد سے ’کریات اربع‘ نامی یہودی کالونی تعمیر کی۔ کریات اربع کالونی کا منصوبہ لیبر پارتی کے دو سرکردہ لیڈروں شمعون پیریز اور یگال الون نے پیش کیا تھا۔ پیریز اس وقت اسرائیل میں بنیادی ڈھانچے کے وزیر تھے۔

سنہ 1970ء میں اس کالونی میں یہودیوں کی آباد کاری کا عمل شروع ہوا۔ اس کالونی میں ’ھتاحیا اور مولیدت‘ نامی دو انتہا پسند یہودی تنظیموں سے وابستہ یہودیوں کو بسایا گیا۔ اس کالونی میں اسرائیل کی انتہا پسند تنظیم اور یہودی آباد کاری میں پیش پیش ’گوش امونیم‘ تحریک میں بھی سرگرم ہوگئی۔ اس تنظیم کی کوششوں سے بیرون ملک سے سات ہزار یہودیوں کو لا کر بسایا گیا۔ یہودیوں کی آباد کاری کے بعد وہاں پر فلسطینیوں کے قتل عام کے کئی واقعات رونما ہوئے۔

سنہ 1994ء میں مسجد ابراہیمی میں باروخ گولڈ چائن نامی ایک یہودی دہشت گرد نے ماہ صیام کی ایک صبح نماز فجر کی ادائی میں مصروف فلسطینیوں پر گولیاں چلائیں جس کے نتیجے میں 39 فلسطینی شہید اور 200 کے قریب زخمی ہوئے۔ الخلیل شہر کی تاریخ میں صہیونیوں کے ہاتھوں فلسطینیوں کے اجتماعی قتل عام کا یہ بدترین اور انتہائی خوفناک واقعہ ہے۔ اس کے علاوہ یہودی شرپسندوں نے حارہ جابر، وادی النصاریٰ، وادی الحصین، البویرہ، البقعہ اور الکسارہ کے علاقوں میں فلسطینیوں پر کئی بار قاتلانہ حملے کیے۔ ان کی املاک کی لوٹ مار اور توڑپھوڑ کی۔ یہ سلسلہ نہ صرف آج بھی جاری ہے بلکہ اس میں پہلے کی نسبت زیادہ شدت دیکھی جا رہی ہے۔

’بیت ھداسا‘ دل میں سرطان
الخلیل شہر کی شاہراہ شہداء پر باب الزاویہ چوک کے قریب الکراج القدیمہ گراؤنڈ واقع ہے۔ اس کے قریب ہی ایک تاریخی عمارت قائم ہے جسے اہل الخلیل ’مدرسہ الدبویا‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ یہ ایک پرانی درسگاہ کی عمارت ہے جو اٹھارہویں صدی عیسوی میں بنائی گئی۔ دو منزلہ اس عمارت کا کل رقبہ 2 دونم یعنی 2 ہزار مربع میٹر ہے۔ گذشتہ کئی سال سے اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی ’اونروا‘ نے اس عمارت کو ایک اسکول کے لیے استعمال کیا۔ یہودی اس عمارت کو اپنا ایک تاریخی اسپتال قرار دینے کا من گھڑت دعویٰ کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس اسپتال کو’بیت ہداسا‘ کا نام دیا جاتا ہے۔

سنہ 1978ء میں یہودی مردو خواتین کے ایک گروپ نے اس عمارت پر فوج کی مدد سے قبضہ کرلیا۔ اس کے بعد الدبویا میں یہودیوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔ یہودیوں کے خاندان اس عمارت کے اطراف میں آباد کیے گئے اور اس جگہ کی سیرو تفریح کے لیے یہودی روز مرہ کی بنیاد پر آتے اور دھاوے بولتے رہے۔ یہودیوں کی اس غیرقانونی قبضے کی سازش کے خلاف فلسطینیوں میں شدید اشتعال پایا جاتا ہے اور اس کا اظہار سنہ 1980ء میں ہونے والی ایک مزاحمتی کارروائی سے بھی کیا جاسکتا ہے جس میں 6 صہیونی واصل جنہم ہوگئے تھے۔

یہودیوں نے نہ صرف مدرسہ الدبویا پرقبضہ جمایا بلکہ اس کے اطراف میں واقع کئی دوسری عمارتوں پر تسلط جمالیا ہے۔ اسرائیلی فوج نے مختلف انہدامی کارروائیوں میں فلسطینیوں کی کئی دکانیں مسمار کرڈالیں۔ ایک قریب بس اسٹینڈ پر قبضہ کیا، الجببری پٹرول اسٹیشن، اسامہ بن المنقذ اسکول بھی صہیونیوں کے تسلط میں چلے گئے۔

بیت رومانوا
پرانے بیت المقدس شہر کے بلدیہ ہیڈ کواٹر کے قریب واقع ’عین العسکر‘ کو یہودی ’بیت رومانوا‘ کا فرضی نام دے کر اس پر ملکیت کا دعویٰ جتلاتے ہیں۔ اس عمارت کے اطراف میں پرانے دور کی بنی دیواریں آج بھی موجود ہیں۔ خلافت عثمانیہ کے دور میں اس عمارت کو کچہری کے طور پراستعمال کیاجاتا تھا۔ یہودیوں کا دعویٰ ہے کہ ترکی نژاد ایک یہودی کاروباری شخصیت ’رومانو‘ نے اٹھارہویں صدی عیسویں میں اس عمارت کی بنیاد رکھی تھی مگر بعد میں اس پر فلسطینیوں نے قبضہ جمالیا۔

یہودیوں نے الدبویا مدرسے پرقبضے کے بعد عین العسکر اور اس کے اطراف میں کئی اہم مقامات پرقبضہ کیا۔ سنہ 1984ء میں صہیونی فوج نے بیت رومانوا کے اطراف میں کھدائیوں کا سلسلہ شروع کیا اور وہاں پر ایک پانچ منزلہ عمارت کھڑی کردی۔ اس نئی عمارت کے اندر یہودی آباد کاروں کے لیے ایک نیا اسکول بھی قائم کردیا۔

ابراہام افینو
مسجد ابراہیمی کے قریب واقع مرکزی سبزی منڈی اور اس کے اطراف میں یہودیوں نے کئی عمارتیں قائم کیں۔ کئی پرانی عمارتوں کو یہودیون کی ملکیت قرار دے کران پرقبضہ کیا۔ فلسطینیوں کی کئی مساجد کو بند کردیا گیا اور ان پر صہیونی ریاست کے پرچم لہرائے گئے۔

مسجد ابراہیمی کے قریب واقع مسجد اہل سنت اور اس کے اطراف میں فلسطینیوں کے کئی گھروں پر یہودی آباد کاروں اور فوجیوں نےغاصبانہ قبضہ کیا۔ یہودیوں نے دعویٰ کیا کہ یہ جگہ حارۃ الیہود کے نام سے مشہور ہے اور سنہ 1929ء میں برپا ہونے والی انتفاضہ کے دوران یہاں سے یہودی فرارہوگئے تھے۔

حارۃ الیہود کے نام سے جعلی طورپر مشہور کیے گئے علاقے کا رقبہ 67 دونم ہے جس پر یہودیوں کے لیے 100 مکانات تعمیر کرکے ان پر 500 یہودی خاندان آباد کیے گئے ہیں۔ رہائشی مکانات کے علاوہ کئی اسکول، ثقافتی مراکز اور تجارتی مراکز بھی قائم کیے گئے ہیں۔

الخلیل شہر کے اس اہم اور تاریخی حصے پر قبضے کےبعد یہودیوں نے مسجد الاقطاب کو مستقل طور پربند کرنے کے بعد اس پر اسرائیلی پرچم لہرا دیا۔ فلسطینیوں کو اس مسجد میں نماز ادا کرنے کی اجازت نہیں۔

السھلہ بازار کی مسجد الکیال کو بھی بند کرنے کے بعد اس میں نماز کی ادائی روک دی گئی۔
مرکزی سبزی منڈی بند کردی گئی اور اس پر یہودیوں نے قبضہ جمالیا۔
پرانی کلاتھ مارکیٹ، لو بازار اور اطراف میں واقع فلسطینیوں کی سیکڑوں دکانیں بند کردی گئیں۔
الخان اور قنطرہ الحمام کے مقامات پر واقع فلسطینی محکمہ اوقاف کے دفاتر سیل کردیے گئے۔
فلسطینیوں کے پرانے گھروں اور سبزی منڈی کو فوجی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے اور ان پر چھاؤنی تعمیر کی گئی ہیں۔

 

مختصر لنک:

کاپی