فلسطین میں انسانی حقوق کی تنظیموں اور کارکنوں نے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیلی حکام فلسطینی شہریوں کو سوشل میڈیا پر اسرائیل مخالف سرگرمیوں کی آڑ میں بڑے پیمانے پر حراست میں لینے کے ساتھ ساتھ برائے نام الزامات میں بھی انہیں کئی کئی سال تک جیلوں میں ڈالنے کی ظالمانہ پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق حال ہی میں اسرائیلی جیلوں سے رہا ہونے والے ایک فلسطینی سماجی کارکن اسامہ شاہین نے بتایا کہ اسرائیلی جیلوں میں سیکڑوں کی تعداد میں نوجوان سماجی کارکن قید ہیں۔ ان کے خلاف برائے نام الزمات کے تحت مقدمات چلانے اور انہیں کئی کئی سال تک پابند سلاسل رکھنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔
فلسطین اسیران اسٹڈی سینٹر کے ڈائریکٹر اسامہ شاہین نے بتایا کہ اسرائیلی عقوبت خانوں میں دسیوں ایسے فلسطینی کارکن بھی قید ہیں جن کا جرم صرف اتنا ہے کہ انہوں نے ’فیس بک‘ یا ٹوئٹر پر اسرائیلی مظالم کے خلاف صرف ایک لفظ یا زیادہ سے زیادہ ایک جملہ ہی لکھا تھا۔ اس ایک جملے یا لفظ کی پاداش میں اسرائیلی فوج نے انہیں حراست میں لیا اور ان پراسرائیل کے خلاف نفرت کو ہوا دینے کا الزام عاید کیا گیا ہے۔
اسامہ شاہین نے بتایا کہ اگر کوئی فلسطینی شہری اپنے فیس بک صفحے یا ٹوئٹر پر کسی شہید یا اسیر کی تصویر پوسٹ کرتا ہے تو وہ بھی قابل مواخذہ ہے، ایسی کسی تصویر کی پوسٹ بھی فلسطینی شہریوں کو تین تین سال قید کی سزا کا موجب بن سکتی ہے۔
شاہین کا کہنا ہے کہ کسی کو اس بات پر حیران نہیں ہونا چاہیے کہ اسرائیلی حکام صرف ایک جملے یا تصویر کی پاداش میں کسی فلسطینی کارکن کو تین سال یا اس سے بھی زیادہ عرصے کے لیے پابند سلاسل کردیں، کیونکہ اسرائیل نے عملا سیکڑوں ایسے فلسطینی شہریوں کو زندانوں میں ڈال رکھا ہے جن کا قصور صرف اتنا ہے انہوں نے سوشل میڈیاویب سائیٹس پراسرائیلی ریاستی مظالم کے خلاف کوئی ایک جملہ یا کوئی تصویر پوسٹ کی تھی جو صہیونیوں کو ناگوار گذری ہے۔
اسامہ شاہین نے بتایا کہ کوئی فلسطینی سوشل میڈیا پر کسی فلسطینی شہید کی تعریف نہیں کرسکتا۔ کسی فلسطینی پر اسرائیلی فوج کے ہاتھوں ہونے والے ظلم کی تصویر پوسٹ نہیں کرسکتا۔ اسرائیلی مظالم کے خلاف کوئی جملہ نہیں لکھ سکتا۔ کوئی کارٹون پوسٹ نہیں کرسکتا۔ اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو اسے پکڑ لیا جاتا ہے اور اس کی سزا تین سال یا اس سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے۔