شنبه 03/می/2025

غزہ کے بحران اورننھے فلسطینی سائنسدانوں کے کارنامے!

جمعرات 31-اگست-2017

فلسطین کے گنجان آباد علاقے غزہ کی پٹی کو بحرانوں کا علاقہ کہا جاتا ہے۔ جنگوں کے بحران، صحت کے بحران، پانی کا بحران، بجلی کا بحرا، مہنگائی کا بحران، بے روزگاری کا بحران اور ان گنت دوسرے بحران وہاں کے مکینوں کا مقدر ہیں۔

مگر دوسری جانب ان بحرانوں سے نمٹنے کے لیے بڑے تو بڑے بچے بھی اپنے اپنے طور پران کے متبادل حل پیش کرتے ہیں۔

مرکزاطلاعات فلسطین غزہ کی پٹی کے ننھے فلسطینی سائنسدانوں کی علاقے میں موجود بحرانوں کے حل کے لیے کی جانے والی کاوشوں پر روشنی ڈالی ہے۔15 سال سے کم عمر کے فلسطینی سائنسدانوں اور موجدین نے اپنے اپنے علمی اور سائنس تحقیقات کے مطابق غزہ کو درپیش بحرانوں کے حل پیش کیے ہیں۔

بحالی اور ترقی ایسوسی ایشن’اعمار‘ کی جانب سے غزہ کی پٹی کے 19 بچوں کا انتخاب کیا گیا۔ 11 سے 15 سال کی عمر کے ننھے سائنسدانوں کو خصوصی طور پر تیار کیا گیا۔ ان بچوں نے اپنے سائنسی تجربات کے ذریعے جہاں اپنی علمی صلاحیت کا لوہا منوا یا وہیں انہوں نے فلسطین کی نئی نسل کو یہ پیغام دیا ہے کہ علمی اور سائنسی میدانوں میں فلسطینی قوم کسی سے پیچھے نہیں۔

’ننھے موجدین‘ کے نام سے شروع کردہ اس پروگرام میں حصہ لینے والے کم عمر فلسطینی بچوں نے اپنی علمی محبت کا بھی برملا اظہار کیا ہے۔ ’اعمار‘ ایسو سی ایشن کے زیراہتمام منعقدہ ایک نمائش میں کم عمر بچوں کی تیار کردہ اشیاء کی نمائش کی گئی۔ بچوں کی سائنسی اور علمی کاوشوں کو فلسطین بھر میں عوامی اور سماجی سطح پر غیرمعمولی طور پرسراہا گیا ہے۔

’اعمار‘ ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ غزہ کے بحرانوں کے تناظر میں مختلف چیزیں تیار کرنے والے بچوں کو ایک خاص علمی اور سائنسی ماحول مہیا کیا گیا اور انہیں مختلف اشیاء کی تیاری کے لیے وسائل فراہم کیے گئے۔ بچوں نے اپنی علمی صلاحیت کو غزہ کے بحرانوں کے حل کے تناظر میں اظہار کا موقع دیا ہے۔

فلسطینی ننھے سائنسدانوں نے ’آبی زراعت‘ کا تصور پیش کیا اور انہوں نےگھروں کے اندر مختلف اقسام کے پودے اگا کر ایک نئے انداز میں کاشت کاری اور زراعت کا تصور دیا۔ اس کے علاوہ بچوں نے غزہ کی پٹی میں ٹریفک کے مسائل کے پیش نظر ننھے ہاتھوں سے ’ٹریفک سگنل‘ آلات تیار کیے ہیں جنہیں عملی میدان میں بھی استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔ اسی طرح’اسمارٹ ہوم‘ ایک ایسا تصور ہے جس میں اسمارٹ گھروں کی تیاری کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ کم عمر بچوں نے’سہ جہتی تحریر‘[ تھری ڈی پرنٹنگ] کے آلات بھی تیار کیے ہیں جو بچوں میں جدید ٹیکنالوجی کی طرف بڑھتے رححان اور اس میدان میں ان کی صلاحیت کا بہ خوبی اندازہ ہوتا ہے۔

ننھے موجدین کے پروگرام میں شامل کم عمر سائنسدان محمد ابو الریش نے بتایا کہ نمائش میں پیش کیا گیا’آبی زراعت‘ کا تصور ایک نئی چیز ہے۔ اس تصور کے ذریعے یہ بتایا گیا ہے کہ پودےقدرتی مٹی کے بغیر بھی اگائے جاسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر پودوں کو قدرتی ماحول نہ مل سکے تو بھی وہ اگائے جاسکتے ہیں۔ یہ تصور بڑے پیمانے پر غزہ میں زراعت کے شعبے میں ایک انقلاب لا سکتا ہے۔ کیونکہ غزہ کی پٹی میں آبادی کے تیزی سے پھیلاؤ ، جنگوں اور آبی وسائل کی قلت کے نتیجے میں زراعت کا پیشہ بری طرح متاثر ہوا ہے۔ اس طرح کے تصور زراعت سے گھروں کے اندر لوگ بغیر پانی دیے مختلف چیزیں کاشت کرسکتے ہیں۔

تنظیم کے ڈائریکٹر انور موسیٰ کا کہنا ہے کہ ان کی تنظیم معذور ننھے سائنسدانوں کو سپورٹ کرنے کے لیے کام کررہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ غزہ کی پٹی میں بچوں کے سائنسی تجربات کو اجاگر کرنے کے لیے بین الاقوامی سائنسی اداروں سے بھی بات کریں گے۔

مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ غزہ کی پٹی کے بچوں میں تحقیق و جستجو کا جذبہ موجود ہے۔

نمائشی کیمپ کی رابطہ کار اسراء موسیٰ نے پروگرام کی کامیابی پر مسرت کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ جن اغراض ومقاصد کے لیے نمائش کا اہتمام کیا گیا تھا وہ پورے ہوئے ہیں۔ ہم نے یہ بتایا ہے کہ غزہ کی پٹی کے بچوں میں بھی سائنسی میدان میں تحقیق کی صلاحیت موجود ہے۔ تمام ترمشکلات اور پابندیوں کے باوجود فلسطینی بچے نئے سائنسی نظریات سے ہم آہنگ ہیں۔

انجینیر اسراء موسیٰ نے کہا کہ 30 گھنٹوں تک جاری رہنے والی نمائش میں علمی شعبوں سے تعلق رکھنے والے بڑی تعداد میں شہریوں نے پذیرائی دی ہے۔ انہوں نے تعلیمی اداروں سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے ہاں زیرتعلیم طلباء کی مہارتوں کو نمایاں کرنے کے لیے اس طرح کے پروگرامات منعقد کریں تاکہ بچوں کی صلاحیتوں کا اظہار ممکن بنایا جاسکے۔

ان کا کہنا تھا کہ غزہ کی پٹی کے انیس بچوں نے 20 مختلف سائنسی آلات تیار کرکے اپنی صلاحیت کا لواہاں منوایا ہے۔ ان میں حیرت انگیز روبورٹ، خود کار کرین، موبائل خلائی شٹل اور ایئر کنڈیشینرسسٹم شامل ہیں۔

مختصر لنک:

کاپی