امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کے بعد فلسطینی اتھارٹی اور صدر محمود عباس امید وبیم کی ایک نئی کشمکش کا شکار ہیں۔ وہ کبھی تو نئی امریکی انتظامیہ سے نام نہاد مذاکرات کی بحالی کی موہوم امیدیں زندہ کرنے کوشش کرتے ہیں اور کبھی امریکی صدر کے رویے سے مایوس ہو کر فلسطینی اتھارٹی ہی کو تحلیل کرنے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد فلسطینی اتھارٹی اپنے ہی حصار میں گھری ہوئی ہے۔ اس کے پاس متبادلہ فیصلوں کے لیے انتظار کے سوا اور کوئی راستہ نہیں۔ اس انتظار کی سولی پر لٹکی فلسطینی قوم کے جسد میں غاصب صہیونی نت نئے چرکے لگا رہے ہیں۔
ماہرین کاکہنا ہے کہ امریکا کی طرف دیکھتے دیکھتے فلسطینی اتھارٹی کا انتظار زیادہ طویل ہوگیا ہے۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کے پاس انتظار کو ختم کرنے کا فیصلہ کرنے کی ہمت نہیں۔ وقت گذرنے کے ساتھ فلسطینی اتھارٹی اور صدر عباس کے لیے فیصلہ کرنا اور بھی مشکل ہوتا جا رہا ہے کہ آیا انہیں مذاکرات کے سراب کی طرف لوٹنا ہے یا اس کے متبادل اقدامات کرنے ہیں۔
امریکی وفد کی آمد
مشرق وسطیٰ میں نام نہاد قیام امن کے امکانات پر بات کے لیے امریکا کا تین رکنی وفد بھی آیا اور واپس چلا گیا۔ اس وفد کی آمد سےقبل فلسطینی اتھارٹی کو اس سے غیرمعمولی توقعات وابستہ تھیں۔
مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکی دورے سے فلسطینی اتھارٹی جو توقعات وابستہ ہیں وہ بھی ایک سراب کے سوا کچھ نہیں۔ امریکا کی اسرائیل کی طرف داری پرمبنی پالیسی سب پر واضح ہے۔ حتیٰ کہ امریکی وفد نے فلسطین میں یہودی آباد کاری روکنے کے لیے بھی اسرائیلی حکام سے کوئی بات چیت نہیں کی حالانکہ یہودی آباد کاری ہی کی وجہ سے فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان مذاکرات تعطل کا شکار ہوئے ہیں۔
اگرچہ فلسطینی اتھارٹی کو یہ امید تھی کی امریکی وفد تنازع فلسطین کا جامع سیاسی پیش کریں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ سیاسی حل کے متبادل کے طور پر فلسطینی اتھارٹی کی مالی امداد کی پیش کش کریں گے مگر ایسا نہیں ہوا۔
مبصرین طلال عوکل، احمد عوض اور اکرم عطا اللہ اس بات پر متفق ہیں کہ امریکا کے پاس تنازع فلسطین۔ اسرائیل حل کرنے کے لیے کوئی واضح ویژن نہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ امریکا خود بھی فلسطین کے مسئلے پر کیفیوژن کا شکار ہے۔ بالخصوص ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد اس کنفیوژن میں مزید اضافہ ہی ہوا ہے۔
فلسطینی اتھارٹی کی دھمکیاں
مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکا فلسطینی اتھارٹی کے سامنے مسئلے کے حل کے لیے کوئی جامع حل پیش کرنے میں غیر سنجیدہ ہے۔ ہوسکتا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کے انتظار کی مدت کے بعد کوئی راستہ نکل آئے۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطینی اتھارٹی امریکی وفد کے دورے کے بعد کے حالات اور اس کے نتائج پر غور کررہی ہے۔
اگر امریکی وفد کی واپسی کے بعد کوئی ٹھوس پیش رفت نہیں ہوتی تو رام اللہ اتھارٹی اور صدرعباس متبادل آپشن استعمال کرنے کی دھمکی دے سکتے ہیں۔ صدر عباس کی طرف سے اتھارٹی کو تحلیل کرنے کی دھمکی اپنی جگہ موجود ہے مگر ان پر بھی امریکا، اسرائیل اور عرب ممالک کی طرف سے اتھارٹی کو تحلیل نہ کرنے کے لیے دباؤ موجود ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کو تحلیل کرنے کے قضیہ فلسطین پر خطرناک اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ فلسطین میں اتفراتفری پھیل سکتی ہے۔ فلسطینی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ محمود عباس کے پاس قومی مفاہمت کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں بچا ہے۔ ان کے پاس آخری راستہ قوم اور تمام فلسطینی نمائندہ تنظیموں کو ساتھ لے کر چلنے کے سوا اب کوئی چارہ نہیں رہا ہے۔