گذشتہ روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مندوبین کی مقبوضہ مغربی کنارے کے وسطی شہر رام اللہ میں فلسطینی اتھارٹی کے ہیڈ کواٹر کے دورے اور صدر محمود عباس سے ملاقات پر فلسطینی عوام میں سخت غم وغصے کی لہر پائی جا رہی ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق رام اللہ میں فلسطینی سیاسی اور سماجی کارکنان کی بڑی تعداد نے امریکی مندوبین کی صدر محمود عباس سے ملاقات ان پرصہیونی ریاست کے ساتھ نام نہاد امن بات چیت کے لیے دباؤ ڈالنے کی شدید مذمت کی۔
خیال رہے کہ گذشتہ روز امریکی صدر کے مشیر گاریڈ کوشنر کی قیادت میں ایک وفد نے اسرائیلی لیڈرشپ سے ملاقات کے بعد فلسطینی صدر محمود عباس سے بھی ملاقات کی تھی۔
ذرائع کے مطابق ملاقات میں امریکی وفد نے فلسطینی صدر عباس پر زور دیا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ غیر مشروط بات چیت کی بحالی کے لیے تیاری کریں۔
فلسطینی شہریوں کی جانب سے امریکی مندوبین کے دورہ رام اللہ اور صدر عباس سے ملاقات کو امریکی بلیک میلنگ قرار دیا گیا ہے۔ رام اللہ میں امریکی مندوبین کی آمد کے خلاف احتجاج کرنے والے شہریوں نے ہاتھوں میں بینرز اور کتبے اٹھا رکھے تھے جن پر لکھتا کہ’ فلسطینی قوم کو امریکا کی اسرائیل نوازی پرمبنی پالیسی قبول نہیں‘ ۔ نیز’امریکی نگرانی اور سرپرستی میں صہیونی ریاست سے مذاکرات قبول نہیں کریں گے‘۔
ادھر فلسطینی پروگریسیو موومنٹ کے سیکرٹری جنرل مصطفیٰ البرغوثی نے کہا ہے کہ امریکی وفد صرف اسرائیل کی طرف داری کرتا ہے۔ امریکی انتظامیہ کی طرف سے اسرائیل پر فلسطین میں یہودی آباد کاری کی روک تھام کے لیے دباؤ ڈالنے کے بجائے فلسطینی اتھارٹی سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ شہداء اور اسیران کے اہل خانہ کو دی جانے والی امداد بند کردے۔