فلسطینی رہ نماؤں اور چیدہ شخصیات کے خلاف صہیونی ریاست کے منفی پروپیگنڈے، ان کی کردار کشی اور دشنام طرازی کے واقعات روز کامعمول ہیں مگر بعض رہ نما صہیونی ریاست کی جعلی کہانیوں کے باعث قابض ریاستی اداروں کے بار بار عتاب کا نشانہ بن چکے ہیں۔
انہی میں ایک نام محمد ماہر بدر کا ہے۔ 62 سالہ محمد ماہر بدر فلسطینی پارلیمنٹ کے منتخب رکن ہیں۔ وہ ایک ہی وقت میں ایک سیاست دان، شعلہ بیاں خطیب، مسجد کے پیش امام، جید عالم دین، مبلغ، اسلامی فقیہ کے ماہر اور یونیورسٹی میں اسلامی علوم کے پروفیسر ہیں۔
شاید ان کی ہمہ جہت شخصیت کی وجہ سے صہیونی گماشتے ان سے خائف رہتےہیں۔ ان کے خلاف جعلی مقدمات قائم کرکے انہیں جیلوں میں ڈالا جاتا اور ہولناک اذیتوں کے عمل سے گذارا جاتا ہے۔
الشیخ محمد ماہر بدر مقبوضہ مغربی کنارے کی ایک جانی پہچانی شخصیت ہیں مگر ان کا سب سے زیادہ وقت الخلیل شہر میں گذرا جہاں وہ مسجد ’الانصار‘ کے امام و خطیب کے فرائض بھی انجام دیتے ہیں۔ ماہ صیام کے دوران روزہ داروں کی خدمت میں انہیں سب سے زیادہ سرگرم عمل دیکھا گیا۔
باسٹھ سالہ فلسطینی سیاست دان نے سنہ 2006ء میں فلسطینی پارلیمنٹ کے لیے ہونے والے انتخابات میں اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کی ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لیا اور بھاری اکثریت سے کامیاب ہوکر ایوان میں پہنچے۔
الشیخ ماہر بدر کئی سال تک صہیونی ریاست کی جیلوں میں قید رہے۔ مجموعی طور پران کی اسیری کا عرصہ 13 سال بنتا ہے۔ انہوں نے مصر کی اسکندریہ یونیورسٹی سے اسلامی فقہ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ فلسطین میں وہ جامعہ الخلیل اور القدس اوپن یونیورسٹی میں اسلامی علوم کے پروفیسر کے طور پرکام کیا۔ سنہ 1992ء کو اسرائیل نے کئی فلسطینی شخصیات کو ملک بدر کرتے ہوئے انہیں لبنان کے مرج الزھور بے دخل کردیا۔
کچھ عرصہ قبل اسرائیلی فوج نے ان پر الزام عاید کیا کہ وہ ترکی سے فنڈز جمع کرکے الخلیل لاتے ہیں جہاں وہ رقوم اسرائیل کے خلاف مزاحمتی کارروائیوں کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ صہیونی حکام کی طرف سے یہ دعویٰ انتہائی خطرناک تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ماہر بدر نے ترکی میں بھاری رقوم جمع کیں اور انہیں واپسی پر الخلیل شہر میں حماس کی مزاحمتی سرگرمیوں کے لیے استعمال کیا۔
اسی الزام کے تحت اسرائیلی فوج نے انہیں حراست میں لیا اور وہ اس وقت صہیونی زندانوں میں پابند سلاسل ہیں۔
ڈاکٹر ماہر بدر نے دو شادیاں کیں۔ ان کی دونوں بیمگات حیات ہیں اور دونوں سے ان کی اولاد بھی ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین نے اسیر رہ نما کی بیگمات سے ان کے اسیر شوہر کے بارے میں گفتگو کی۔ دونوں بیویوں کو سراپا صبر وحلم پایا۔
ان کی پہلی اہلیہ ام عبادہ نے بتایا کہ ہمارے گھر میں قرآن فہمی ماہر بدر کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے اپنے تمام بچوں اور ان کے بچوں کو قرآن سے جوڑ دیا۔ ام عبادہ نے کہا کہ پورا خاندان ہی نہیں بلکہ تمام فلسطینیوں کے دلوں میں ان کے لیے بے پناہ قدر منزلت ہے۔ آج اگر گھر میں صبح اور شام کو قرآن پاک کی تلاوت کا باقاعدہ اہتمام ہوتا اور گھروں میں قرآن فہمی کے دروس کا اہتمام کیا جاتا ہے تو یہ سب ڈاکٹر ماہر بدر کی مرہون منت ہے۔
ڈاکٹر ماہر بدر کی دوسری اہلیہ سائدہ بدر[ام عمر] نے کہا کہ ان کے شوہر ایک چلتی پھرتی دعوت وتبلیغ ہیں۔ انہوں نے جہاں صہیونی ریاست کے جرائم اور قہر وغضب کا بھرپور مقابلہ کیا وہیں مسجد اور قرآن کے ساتھ اپنا تعلق مضبوط بناتے ہوئے اہل علاقہ کو بھی قرآن کے ساتھ جوڑ دیا۔ ان کے شوہر ایک قومی رہ نما کے ساتھ ساتھ فقہ اسلامی کے ماہر اور تجوید کے قاری بھی ہیں۔ انہوں نے عین جوانی میں قرآن کریم حفظ کرنے کی سعادت حاصل کی۔ وہ کئی لہجوں میں قرآن کریم کی تلاوت کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کی گرفتاری سے الخلیل شہر کے عوام ایک جید عالم دین کی خدمات سے محروم ہوگئے ہیں۔
ام عمر کا کہنا تھا کہ وہ اپنے شوہر کے صہیونی جیلوں میں قید پر دکھی ہیں مگر صبر کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑیں گے۔ الشیخ ماہر بدر جیلوں کے اندر بھی قیدیوں میں کلام پاک کی تعلیم عام کرنے اور انہیں قرآن کریم حفظ کرانے میں مدد کرتے ہیں۔
بارہ سالہ بیٹے عمر نے کہا کہ ان کے والد ایک بہادر ہیرو ہیں۔ ان کے لیے اسرائیلی جیلوں میں قید کوئی مشکل نہیں۔ میں صبح شام ان کی جیل سے رہائی کی دعا کرتا ہوں۔ میں اور میرا پورا خاندان والد کی قید کے باعث دکھی ہے۔
یاد رہے کہ اسرائیل کے داخلی سلامتی کے نام نہاد خفیہ ادارے’شاباک‘ نے کچھ عرصہ پہلے انکشاف کیا تھا کہ اس نے حماس کے ایک سیل کو گرفتار کیا ہے جسے ترکی سے فنڈز مل رہے تھے۔ شاباک کے بیان میں کہا گیا ہے کہ حماس کے اس سیل کی قیادت فلسطینی پارلیمنٹ کے ایک رکن الخلیل شہر کے سرکردہ رہ نما ڈاکٹر ماہر بدر کررہے ہیں۔ اس کے بعد ماہر بدر کو بھی حراست میں لے لیا گیا تھا۔