فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے میں معاہدہ اوسلو کے بعد قائم نام نہاد سول ایڈمنسٹریشن کا ادارہ فلسطینی اتھارٹی کے بے اختیار ہونے کا واضح ثبوت ہے۔ کیونکہ ’سول انتظامیہ‘ ہے بھرپور ریاستی وسائل اور سیاسی اثرو رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے غرب اردن میں متوازی حکومت چلا رہی ہے۔
دسری جانب سول ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ غرب اردن میں یہودی آباد کاروں کا ایک ’خادم‘ ادارہ ہےجس کا اصل مقصد فلسطینیوں کے حقوق کی نگرانی نہیں بلکہ یہودیوں کو زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کرنا ہے۔
ویب سائیٹ ’عرب 48‘ کے مطابق سول ایڈمنسٹریشن کے قیام کے وقت اس میں 450 فلسطینیوں کو بھی شامل کیا گیا تھا مگر اب فلسطینی ملازمین کی تعداد کم کرکے 200 تک کردی گئی ہے جب کہ یہودی ملازمین کی تعداد ہزاروں میں ہے۔
کہا یہ جا رہا ہے کہ ’سول انتظامیہ‘ صہیونی ریاست نے فلسطینی اتھارٹی کو دباؤ میں لانے کے لیے تشکیل دے رکھی ہے۔ نام نہاد سیکیورٹی تعاون کی آڑ میں فلسطینی اتھارٹی کی پولیس اسرائیلی فوج کی معاون اور سہولت کا کردار ادا کررہی ہے۔ اس کے باوجود غرب اردن میں سول انتظامیہ کے اختیارات سے فلسطینی اتھارٹی محروم ہے۔
اسرائیلی فوج کے زیرانتظام ’سول انتظامیہ‘ نامی ایک ادارے کو بھی فلسطینی اتھارٹی کے پاؤں تلے سے بساط کھیچنے اور رام اللہ اتھارٹی کو بلیک میلنگ کے لیے ایک حربے اور لاٹھی کے طور پر استعمال کررہی ہے۔ تاکہ فلسطینی اتھارٹی کے زیرکنٹرول بقیہ فلسطینی علاقوں پربھی صہیونی ریاست کا مکمل تسلط قائم کیا جاسکے۔
غرب اردن کے علاقوں میں فوج کی معاونت کار ’سول ایڈمنسٹریشن‘ نامی شعبے کے قیام کا اصل مقصد تو یہ تھا کہ عرب شہروں میں جہاں کہیں اراضی کا کوئی مسئلہ بنے، فلسطینیوں کے مکانات کی تعمیر یا معاملہ ہو یا ایسا کوئی بھی مسئلہ جو دونوں طرف کی انتظامیہ کے لیے اہمیت کا حامل ہو اسے مل کراتفاق رائے سے حل کرنا تھا مگر عملا یہ ادارہ صہیونی فوج کےہاتھ میں فلسطینی اتھارٹی کو بلیک میل کرنے اور اسے دباؤ میں رکھنے کا منظم حربہ ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کی مجرمانہ غفلت اور ’دوستانہ خاموشی‘ کے باعث صہیونی سول ایڈمنسٹریشن زیادہ فلسطینیوں کے سروں پر سوار ہوگیا ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں گذرتا جب اس نام نہاد ادارے کی طرف سے فلسطینیوں کی املاک پرغاصبانہ قبضے، مکانات مسماری ، فلسطینیوں کے مکانات کی تعمیر پرپابندی اور یہودی آباد کاروں کے لیے توسیع پسندی کی سہولت کا کوئی نا کوئی اقدام نہ کیا جاتا ہو۔