جمعه 15/نوامبر/2024

عزون قصبہ اور 146 کے عدد کی حقیقت!

جمعہ 11-اگست-2017

فلسطین کے دیگر شہروں اور قصبات کی طرح مقبوضہ مغربی کنارے کے شمالی شہر قلقیلیہ کے نواحی قصبے ’عزون‘ کی بھی عجیب وغریب داستان ہے۔ دوسرے فلسطینی قصبات کی طرح یہاں پر بھی صہیونی فوج کی جانب سے آئے روز کریک ڈاؤن میں سیکڑوں فلسطینیوں کو حراست میں لیا جاتا ہے۔ دوسرے شہروں کی طرح یہاں بھی مقامی فلسطینی آبادی کی زندگی مفلوج ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق عزون قصبے کے 146 شہری اس وقت صہیونی زندانوں میں پابند سلاسل ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس قصبے کو ایک سو چھیالیس کے عدد کے ساتھ خصوصی نسبت ہے۔ یہاں پر بہت سی ایسی چیزیں موجود ہیں جن کا عدد 146 بنتا ہے۔ اگرچہ یہاں پر اسرائیلی فوج کی طرف سے چھاپوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ یوں یہ عدد بدلتا بھی رہتا ہے، مگر اس کے باوجود کئی بار واپس عدد لوٹ آتا ہے۔

عزون قصبے کی اپنی آبادی10 ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ آبادی سے بھرپور ہونے کے ساتھ یہاں کے باشندوں کی مشکلات بھی بے پناہ ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں جاتا کہ یہودی فوجی اور آباد کار یہاں کی آبادی پر چڑھائی نہ کرت ہوں۔

ایک مقامی شہری صلاح شبیطہ نے بتایا کہ یہاں کے شہریوں کا کریک ڈاؤن روز کا معمول ہے۔ ہر گھر اور ہرکنبے  کے افراد کو کریک ڈاؤن کا سامنا ہے شاید ہی ایسا کوئی گھرانہ ہو جس کا ایک یا زیادہ افراد بار بار گرفتار نہ کیے گئے ہوں۔

مختلف اشکال کی ناکہ بندی

صلاح شبیطہ نے بتایا کہ عزون قصبے کو درپیش حالات کا جائزہ لینے سے آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس قصبے کو ہمہ وقت محاصرے کا سامنا ہے۔ یہ غیر اعلانیہ محاصرہ کئی طرح سے اور کئی شکلوں میں جاری ہے۔ یہاں پر اسرائیلی فوج کی طرف سے شہریوں کی آمد ورفت پر پابندیاں عاید ہیں۔ جگہ جگہ ناکے اور چیک پوسٹیں قائم ہیں۔ کنکریٹ کی دیواریں، سیمٹ کے بلاک اور دیگرمختلف رکاوٹوں نے اہل علاقہ کی زندگی عذاب بنا رکھی ہے۔

عزون قصبے کا نام حالیہ مہینوں کے دوران اسرائیلی پریس میں بھی چھایا رہا ہے۔ صہیونی میڈیا کی طرف سے اس قصبے خلاف اشتعال انگیز مہم میں اضافہ ہوا ہے۔ اسرائیلی ذرائع ابلاغ میں دعویٰ کیا جاتا رہا ہے کہ عزون قصبہ اسرائیل دشمنوں کی پناہ گاہ ہے اور یہاں کا ہرخاندان اور کنبہ اسرائیل کے خلاف مزاحمتی سرگرمیوں میں ملوث ہے۔ فلسطین کے دوسرے علاقوں میں رہنے والے فلسطینی مزاحمت کار بھی اسی قصبے میں پناہ لیتے اور چھپ کر اسرائیلی فوجیوں اور یہودی آباد کاروں پر حملے کرتے ہیں۔

اسرائیلی میڈیا کی شہہ پر صہیونی فوج نے بھی عزون قصبے کے باسیوں کے خلاف وحشیانہ مہمات شروع کیں۔ فلسطینیوں کو بسوں اور دوسری گاڑیوں سے اتار کر ہراساں کیا جاتا ہے۔ یہودی آباد کار بھی مقامی فلسطینی آبادی پر تشدد اور انتقامی کارروائیوں میں کسی سے پیچھے نہیں۔

صہیونی فوج کی جانب سے حالیہ کچھ عرصے کے دوران مقامی فلسطینی آبادی میں بڑے پیمانے پر دھمکی آمیز بیانات تقسیم کیے ہیں۔ شہریوں کے گھروں پر گرائے گئے دھمکی آمیز پیغامات میں مقامی آبادی کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئی ہیں۔ یہ دھمکیاں محض پیغامات کی حد تک محدود نہیں بلکہ صہیونی فوجی کسی بھی وقت اور کہیں بھی سرچ آپریشن شروع کرسکتی ہے۔ مقامی آبادی کو دھمکی دی جاتی رہی ہے کہ وہ سنگ باری کرنے والے فلسطینی نوجوانوں کو پناہ دینا چھوڑ دیں۔ اگر انہوں نے ایسا نہ کیا تو اس کے نتیجے میں پوری آبادی کو اس کا خمیازہ بھگتنا ہوگا۔

ہمہ نوع مصائب ومشکلات

ایک مقامی شہی احمد رضوان نے بتایا کہ صہیونی فوج کی طرف سے عزون قصبے کے شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق بری طرح پامال کیے جا رہے ہیں۔ کوئی گھر، کوئی دکان اور کوئی ورکشاپ ایسی نہیں جس پر اسرائیلی فوج بار بار چھاپے مار کر فلسطینیوں کو ہراساں نہ کرتی ہو۔ قصبے پر غیراعلانیہ کرفیو نافذ ہے اور شہریوں کی روز مرہ نقل وحرکت پر کڑی پابندیاں عاید ہیں۔

مرکزاطلاعات فلسطین کے نامہ نگار سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسرائیلی فوج کی انتقامی کارروائیوں کے باعث عزون قصبے کی معیشت کو بھی غیرمعمولی نقصان پہنچا ہے۔ قصبے کے جتنے بھی شہر اس وقت صہیونی زندانوں میں قید ہیں ان میں سے بیشتر پر پٹرول بم حملوں اور سنگ باری کا الزام عای ہے۔

اس قصبے میں یہودی آباد کاری کا سرطان 1978ء میں پھیلنا شروع ہوا۔ اس وقت یہاں پر اسرائیل کی تین بڑی یہودی کالونیاں قائم ہیں۔ معالیہ شمرون کالونی 1980ء میں قائم کی گئی۔ یہ کالونی 1903 دونم رقبے پر پھیلی ہوئی ہے۔ ’گنات شمرون‘ 1985ء میں قایم کی گئی اور اس کے لیے 484 دونم رقبہ مختص کیا گیا۔ جب کہ کارنی شمروان 1978ء میں 7339دونم رقبے پر تعمیر کی گئی ہے۔

مختصر لنک:

کاپی