فلسطین کے دریائے اردن کے مغربی کنارے کے علاقوں پر سنہ 1967ء کی جنگ کے دوران ناجائز قبضے کے بعد صہیونی ریاست نے یہودی آباد کاری، فوجی قبضے کو توسیع دینے فلسطینیوں کے وجود کی قیمت پر یہودی آبادی کوبڑے پیمانے پر پھیلانے کی سازشیں رات دن جاری ہیں۔
غرب اردن کو یہودیوں کا گڑھ بنانے اور لاکھوں فلسطینیوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کے لیے قابض اسرائیلی حکومت نت نئے منصوبے شروع کرتی ہے۔ ایسا ہی ایک نیا اور انتہائی خطرناک پلان انتہا پسند اسرائیلی وزیر دفاع آوی گیڈور لائبرمین نے پیش کیا ہے۔ اس مکروہ منصوبے اور سازش کے تحت غرب اردن کے علاقوں کو جگہ جگہ فیصلوں کے اندر بند کرنے کی اسکیم شامل ہے۔
حال ہی میں اسرائیلی کابینہ کے اجلاس کے دوران لائبرمین نے اپنا یہ مکروہ منصوبہ پیش کیا۔ اس منصوبےکے تحت غرب اردن میں فلسطینی آبادیوں کے چاروں اطراف میں یہودی کالونیوں کے قیام کے ساتھ ساتھ فصیلیں تعمیر کرکے فلسطینیوں کی نقل وحرکت کو مزید بند کرنا ہے۔ اس منصوبے کے تحت بیت المقدس میں موجود فلسطینیوں کے گرد بھی فصیلوں کی تعمیر کے ساتھ ساتھ غرب اردن کے شمالی اورجنوبی علاقوں میں دیواروں کی تعمیر کا منصوبہ شامل ہے۔
لائبرمین کا پیش کردہ فارمولہ اپنی نوعیت کا انتہائی خطرناک اقدام ہے۔ اس منصوبے کے تحت غرب اردن کے جنوبی علاقے ‘عین جدی‘ سے اریحا تک دیوار کی تعمیر، جب کہ شمال میں الخلیل شہر سے جنوب میں بیت لحم، غوش عتصیون کالونی، مغربی رام اللہ اور بیتار عیلیت یہودی کاکونی کے قریب ایک طویل دیوار فاصل تعمیر کرنا ہے۔
غرب اردن کو فیصلوں میں بند کرنے کا یہ منصوبہ نیا نہیں بلکہ سنہ 1970ء کے عشرے میں ایسا ہی ایک منصوبہ ’الون‘ اسکیم کے تحت منظور کیا گیا تھا جس کا مقصد فلسطینی آبادی کو دیواروں کے اندر بند کرنا تھا۔ اس منصوبے کے تحت غرب اردن کے مشرقی اور مغربی اطراف میں دو متوازی دیواریں تعمیر کرکے فلسطینیوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کی اسکیم تیار کی گئی تھی۔ مغربی اور مشرقی غرب اردن میں 10 کلو میٹر اندر تک اور گرین لائن سے 10 کلو میٹر کی مسافت سے اس منصوبے کو آگے بڑھانے کی تجاویز دی گئی تھیں۔ اس طرح اس منصوبے کی ایک دیوار اردن کی سرحد سے محض دس کلو میٹر کی دوری پر بنائی جانا تھی۔
اگرچہ اسرائیلی کابینہ میں یہ منصوبہ ابھی زیربحث ہے اور بعض سیاسی جماعتیں اس کی مخالفت کررہی ہیں۔ ان کی مخالفت کی وجہ فلسطینیوں کی حمایت نہیں بلکہ وہ پورے غرب اردن کو اسرائیل میں ضم کرنے کے مطالبے کے تحت اس کی مخالفت کررہی ہیں۔ اسرائیلی پارلیمنٹ میں شامل جیوش ہوم جماعت غرب اردن کے سیکٹر C کو پہلے مرحلے میں اسرائیل میں ضم کرنے کا مطالبہ کرتی آئی ہے۔
فلسطین میں یہودی آباد کاری کے امور کے ماہر خلیل تفکجی کا کہنا ہے کہ لائبرمین کی اسکیم کے تحت اسرائیل غرب اردن کا 30 فی صد رقبہ اسرائیل میں ضم کرنے کا خواہاں ہے۔ اس میں وادی اردن کا علاقہ بھی شامل ہے جو غرب اردن کا ایک تہائی ہے۔ وادی اردن کو گرین لائن، غرب اردن کے جنوب میں عین جدی، شمال میں الغور اور صنعتی زون، الشیخ حسین گذرگاہ اور حیفا بندرگاہ تک کے علاقے اس میں شامل ہیں۔
سازشی منصوبے کے اہداف
خلیل تفکجی کا کہنا ہے کہ اسرائیل عرب ممالک کی داخلی کشیدگی اور فلسطین کی موجودہ ابتر صورت حال سے فائدہ اٹھا کر اپنے مذمو عزائم کو آگے بڑھان چاہتا ہے۔ اس مقصد کی تکمیل کے لیے صہیونی ریاست کے پاس اسرائیل کی سلامتی کو لاحق خطرات کا ایک بہانہ بھی ہےجس کی آڑ میں اسرائیل غرب اردن کو فیصلوں میں بند کرنا چاہتا ہے۔
اس منصوبے کے پس پردہ آبی اقتصادی فواید اور یہودی آباد کاری کی توسیع بھی شامل ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے تجزیہ نگار خلیل تفکجی نے کہا کہ غرب اردن میں غوش عتصیون یہودی کالونی کے قریب دیوار فاصل کی تعمیر عرصہ ہوا شروع ہوچکی ہے۔ یہ منصوبہ دراصل ’عظیم تر یروشلم‘ کے صہیونی منصوبے کا تسلسل ہے جس کے تحت فلسطین کی وسیع اراضی کو شمالا جنوبا اسرائیل میں شامل کرنا ہے۔
اسی اسکیم کے تحت صہیونی ریاست نے غرب اردن کے سیکٹر C میں ارئیل یہودی کالونی میں وسیع علاقے پر دیوار اور یہودی کالونیوں کی تعمیر جاری ہے۔ شمال میں یہ دیوار طولکرم سے ہوتی ہوئی تین اطراف سے قلقیلیہ کو بھی گھیرے ہوئے ہے۔
مقدسات کے لیے خطرہ
خلیل تفکجی نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ غرب اردن اور بیت المقدس میں فلسطینی آبادی کو فیصلوں میں بند کرنے کے لائبرمین کے منصوبے کا ایک انتہائی خطرناک پہلو فلسطینی مقدسات پر پڑنے والے اس کے منفی اثرات ہیں۔ اسرائیل غیر اعلانیہ انداز میں جنوب مشرقی بیت المقدس کی فلسطینی اراضی میں تعمیر رکرہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ فلسطین میں معالیہ ادومیم یہودی کالونی بھی اسی سازشی منصوبے کا حصہ ہے۔ یہ کالونی ایک طرف بحر مردار تک پھیلی ہوئی ہے۔ ضمنی طور پر اس میں کئی دوسری کالونیاں شامل ہیں جو غرب اردن میں۔
اردن کی سلامتی کے لیے خطرہ
ڈاکٹر خلیل تفکجی نے بتایا کہ وادی اردن کا علاقہ اردن کی سرحد سے متصل ہے۔ اس علاقے میں اسرائیل کی جانب سے فیصلوں کی تعمیر کا اصل مقصد فلسطینی اقتصادیات سے ناجائز فائدہ اٹھانے کے ساتھ ساتھ اردن کے اقتصادیات سے بھی فایدہ اٹھانا ہے۔ یہ علاق ’اریحا کا اقتصادی گیٹ‘ کہلاتا ہے۔ اگر یہاں پر اسرائیل اپنے مکروہ منصوبے بالخصوص دیوار فاصل کی تعمیر کرتا ہے تو یہ اردن کی سلامتی کے لیے بھی سنگین خطرہ ہوگا۔ اس علاقے میں دیوار فاصل کی تعمیر کا مقصد اقتصادی آبی اور سیکیورٹی فواید حاصل کرنا اور اردن کو نقصان پہنچانا ہے۔