قابض اسرائیلی فوج اور پولیس کی جانب سے مقبوضہ بیت المقدس میں نہتے فلسطینیوں کے خلاف طاقت کے وحشیانہ حربوں کے استعمال اور فلسطینیوں کی جانب سے مسائل کے حل کے لیے دی گئی درخواستوں پر حکومتی بے اعتنائی پر اسرائیلی عدلیہ نے بھی سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔
عبرانی اخبار ’ہارٹز‘ کے مطابق عدالتوں نے وزارت داخلہ کو القدس شہر میں فلسطینیوں سے نمٹنے کے طریقوں پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے بنیادی حقوق کا خیال رکھنے پر زور دیا ہے۔
عبرانی اخبار کے مطابق سپریم کورٹ کے جج جسٹس ‘یورام ڈانزیگر‘ نے وزارت داخلہ کو سرزنش کی ہے جس میں وزارت داخلہ کےحکام کو بیت المقدس کے فلسطینی باشندوں کی درخواستوں پر بے اعتنائی برتنے پر کڑی تنقید کی ہے۔
فاضل جج کا کہنا ہے کہ وزارت داخلہ مشرقی بیت المقدس میں رہائش پذیر فلسطینیوں کی مسائل کے حل کے بجائے ان کے ساتھ انتقامی پالیسی پرعمل پیرا ہے۔ فلسطینیوں کی جان سے دی گئی درخواستوں پر غورنہیں کیا جاتا جس کے بعد وہ عدالت سے رجوع کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ اسرائیلی پولیس اور دیگر سیکیورٹی ادارے فلسطینی نوجوانوں کو حراست میں لینے کے دوران انہیں تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔
اسرائیلی جج جسٹس ڈانزیگر نے وزارت داخلہ پر تنقید بیت حنینا کے دو فلسطینی شہریوں کی جانب سے دی گئی درخواست کی سماعت کےدوران کی۔ یہ درخواست 2014ء میں دی گئی تھی جس میں سکونتی دستاویزات کی تیاری کے لیے کہا گیا تھا مگر بار بار کی کوشش کے باوجود درخواست دہندگان کا مطالبہ رد کردیا گیا تھا۔
اسرائیلی جج کا کہنا ہے کہ مشرقی بیت المقدس میں فلسطینیوں کے ایسے سیکڑوں کیسز موجود ہیں جنہیں وزارت داخلہ نےنمٹانا ہے مگر وزارت داخلہ حیلوں بہانوں سے فلسطینیوں کے مسائل کے حل کے لیے دی گئی درخواستوں کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا جاتا ہے۔