فلسطین میں ’الصبر‘ کے نام سے ہزاروں سال سے ایک میوہ اپنی بے پناہ لذت کے ساتھ ساتھ کئی خطرناک امراض کا شافی علاج بھی سمجھا جاتا ہے۔ یہ میوہ اہل غزہ کے لیے بالخصوص ذریعہ معاش ہونے کے ساتھ ساتھ موسم گرما کی پسندیدہ سوغات بھی ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق دیگر فلسطینی شہروں کی طرح جولائی میں کانٹے دار انجیر کا موسم بھی عروج پر ہے۔ عموما اس پھل کا سیزن 25 جون سے 30 جولائی تک ہوتا ہے۔ خان یونس کے ایک شہری محمد النجار کا کہنا ہے کہ خار دار انجیر اہل فلسطین کی عزت و وقار کی بھی علامت ہے اور ایک معقول ذریعہ معاش بھی ہے۔ سیکڑوں خاندانوں کا رزق اسی پھل سے وابستہ ہے۔ ہرسال اہالیان غزہ کی بڑی تعداد کانٹے دار انجیر کی کاشت کرتے اور اس پھل سے اپنے اور اہل وعیال کا رزق کماتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اپنے غیرمعمولی طبی فواید کی بدولت الصبر کو صحرائی ڈسپنسری بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ مقامی سطح پر اسے ’کانٹے دار انجیر‘ کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ تاریخی مصادر سے پتا چلتا ہے کہ ’الصبر‘ نامی میوہ فلسطین کی دور حاضر ہی کی سوغات نہیں بلکہ یہ ہزاروں سال قبل بھی ارض فلسطین میں کاشت کیا جاتا تھا۔ قدیم فراعنہ مصر کے حکما الصبر کو کئی امراض کے علاج کے طور پراستعمال کرتے تھے۔ فلسطین کے بیشتر شہروں میں کاشت کیا جانے والا پھل الصبر آج سے ہزاروں سال کنعانی دور میں بھی موجود تھا۔
اس میں موجود چپچپانے والے مائع کے ساتھ وٹا من E، امینیو ایسڈ، انسانی جسم کے لیے ضروری غذائی خصوصیات، چہرے کی بشاشت میں اضافہ کرنے والے عوامل، کئی اقسام کے کیمیائی مواد کی موجودگی متعدد امراض سےبچاؤ میں معاون و مدد گار ہے۔
الصبر کو فلسطین میں موسم بہار کا پھل کہا جاتا ہے۔ موسم گرما کے اوائل میں یہ میوہ تیار ہوجاتا ہے۔ اس کے ارد گرد ایک سبز خول اندر موجود منفرد ذائقے دار پھل کی حفاظت کرتا ہے۔ خول کے اطراف میں چھوٹے چھوٹے کانٹے بھی پائے جاتے ہیں۔ اس کا چھلکا با آسانی اتارا جا سکتا ہے۔ اس پھل کو اتارنے کے بعد کچھ دیر فریج میں رکھ کر ٹھنڈا کریں تو اس کا ذائقہ اور لذت اور بھی بڑھ جاتے ہیں۔
الصبر کا پودا دو یا تین میٹر تک اونچا ہوتا ہے۔ الصبر کا پھل ہی نہیں بلکہ اس کے پتوں میں بھی کئی طبی خواص پائے جاتے ہیں۔ پودے پر لگے الصبر کے دانے دور سے نگینوں کی طرح خوبصورت اور دلفریب دکھائی دیتے ہیں۔ یہ پھل پکنے تک زردی مائل یا مالٹے کی شکل اختیار کرلیتا ہے اور جیسے جیسے اس کے دانے بڑے ہوتے جاتے ہیں، ان کے گرنے کا احتمال اور امکان بھی بڑھ جاتا ہے۔
قدیم فراعنہ کے دور میں الصبر کے پھل کو صحرائی ڈسپنسری کہا جاتا تھا۔ اس کی بنیادی وجہ اس کے طبی فواید ہیں کیونکہ اس میں کئی اقسام کے وٹا من پائے جاتے ہیں۔ فراعنہ الصبر کا عرق نکال کر اسے مختلف امراض کے علاج کے لیے استعمال کرتے۔ اس کے علاوہ پھل کو خشک کرکے اس کی معجون بھی بنائی جاتی۔
اس میں آئرن، پروٹین، فائبر، انرجی، پانی، فاسفور، چکنائی، کاربوہائیڈریٹ، کیلیشم، میگنیشیم، پوٹائیشیم، سوڈیم، زنک، وٹامن E، C14، وٹا من B،1، B2 اور B3 کے علاوہ تھیامن، رایپوفلاوین، نیشین، فولیک ایسٹ جیسے خواص اس پھل کی خصوصیات میں شامل ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ الصبر کا استعمال کرنے والے افراد کئی امراض جن میں نظام انہضام کی بیماریوں، ہاضمے میں پائے جانے والے ایسڈ اور امراض سے محفوظ رہتے ہیں۔