پنج شنبه 01/می/2025

اسیران کے منہ سےلقمہ سلب کرنے کا سلسلہ کب تک؟

اتوار 30-جولائی-2017

فلسطینی اتھارٹی کے ستم رسیدہ سابق اسیران اور ان کے اہل خانہ کی اپنے سلب شدہ حقوق کےحصول کے لیے تحریک جاری ہے، مگر فلسطینی اتھارٹی اسیران کی حق تلفی کا سلسلہ جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ ان کے جائز اورمبنی برحق مطالبات کو تسلیم کرنے سے دانستہ طور پر پہلو تہی کا مظاہرہ کررہی ہے۔

آج سے 43 دن پہلے فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس نے امریکی۔ صہیونی دباؤ کے تحت سیکڑوں سابق اسیران کو ماہانہ بنیاد پر فراہم کی جانے والی امداد بند کرنے کا اعلان کیا۔ فلسطینی قوم نے اجتماعی طور پر فلسطینی اتھارٹی  اور صدرعباس کا انتقامی حربہ مسترد کردیا ہے۔ صدر عباس کے اقدام کے خلاف سابق اسیران اور ان کے اہل خانہ نے احتجاج کا سلسلہ شروع کردیا۔ گذشتہ تینتالیس دنوں سے وہ رام اللہ میں المنارہ چوک میں فلسطینی اتھارٹی کے ہیڈ کواٹر کے باہر دھرنا دیے ہوئے ہیں۔

مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق قوم رام اللہ اتھارٹی سے پوچھتی ہے کہ وہ حیران ہیں کہ فلسطینی اتھارٹی کے عہدیدار بالکل غائب ہیں۔ شمالی فلسطین کے قطنہ کے علاقے سے تعلق رکھنے والے منصور شماسنہ نے کہا کہ اس کے 16 سال اسرائیلی زندانوں میں قید کاٹی۔ اب وہ بوڑھے گئے ہیں۔ وہ کئی سال سے اپنے سلب شدہ حقوق کے حصول کے لیے کوششیں کررہے ہیں۔ اب انہیں فلسطینی اتھارٹی کی انتقامی پالیسی کے خلاف بھی ڈیڑھ ماہ سے مسلسل سراپا احتجاج ہیں۔

فلسطینی اتھارٹی کی مجرمانہ غفلت

منصور شماسنہ نے کہا کہ وہ 40 دنوں سے اپنے گھر میں سونے کے بجائے احتجاجی کیمپ میں دن رات گذارتے ہیں۔ ان کے ساتھ ان کے دسیوں کارکنان ہیں۔ وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے ان کے احتجاج پر کس طرح کا رد عمل سامنے آئے گا۔ مگر ڈیڑھ ماہ گذر نے کےباوجود ان کے احتجاج پر کوئی سرکاری حرکت نہیں کی گئی اورنہ ہی ان کے مطالبات پر کان دھرے گئے۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ مختلف اطراف سے وزارت مالیات سے لے کر صدر عباس تک اپنے مطالبات کو تحریری اور زبانی طور پرپہنچا چکےہیں مگر افسوس کے ساتھ ہمیں کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

انہوں نے بتایا جنرل ماجد فرج نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ وہ صدر عباس سے اسیران کے مطالبات پر بات کریں گے مگر ہمارے ساتھ اظہار یکجہتی تو دور کی بات ہمیں فلسطینی اتھارٹی کا کوئی عہدیدار دکھائی تک نہیں دیا ہے۔

شمسانہ کا کہنا تھا کہ مسجد اقصیٰ میں پیدا ہونے والی کشیدگی نے فلسطینی اتھارٹی کو اس طرف مشغول کیا ہے جس کے نتیجے میں ہمارے احتجاج پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ ہم دوسرے ایشوز کی قیمت پراپنے مسئلے کا حل نہیں چاہتے بلکہ ہم ساتھ ساتھ اسیران کے سلب شدہ حقوق کے حصول کے لیے کوشاں ہیں۔ مسجد اقصیٰ ہم سب کی اولین ترجیح ہے اور ہم نہیں چاہتے کہ ہماری وجہ سے قبلہ اول کا معاملہ نظر انداز ہو۔

ظلم قابل قبول نہیں

سابق اسیر زکریا الجسراوی کا کہناہے کہ  فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے اسیران اور ان کے اہل خانہ کے جائز حقوق کوئی احسان نہیں بلکہ اسیران اور ان کے اہل خانہ کو دی جانے والی مراعات  اور مالی وظائف فلسطینی قانون کا حصہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 18 اکتوبر 2011ء کو جب انہیں اسرائیلی جیلوں سے رہا کیا گیا تب فلسطینی وزارت مالیات نے ہم سے معاہدہ کیا تھا  وہ ہماری مالی ضروریات کا خیال رکھے گی اور ہمارے مالی حقوق کو یقینی بنانے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کیے جائیں گے۔ مگر اسیران اور ان کے اہل خانہ کی مالی امداد میں اضافے کے بجائے فلسطینی تھارٹی نے ان کی بنیادی مراعات ہی ان سے چھین لیں۔ ہمارے رزق اور اسیران کے اہل وعیال کے حقوق کو فلسطینی اتھارٹی پربوجھ سمجھ لیا گیا اور سیاسی بنیادوں پر اسیران اور ان کے اہل خانہ کو انتقام کا نشانہ بنایا جانے لگا۔ ہمارے ساتھ کیے گئے تمام عہد وپیمان ختم کردیے گئے۔ سابق اسیران اور ان کے اہل وعیال کے منہ سے نوالہ چھین لیا گیا جو ایک بڑاظلم ہے۔ سابق اسیران اور کے اہل خانہ فلسطینی اتھارٹی کے اس ظلم کو برداشت نہیں کریں گے۔

الجسراوی کا کہنا ہے کہ وہ اپنے دیگر رفقاء کے ہمراہ ڈیڑھ ماہ سے احتجاجی کیمپ میں دن رات بسر کررہے ہیں۔ جب تک ان کے حقوق اور مطالبات تسلیم نہیں کئے جاتے اس وقت تک احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔

الجسراوی نے بتایا کہ انہوں نے اسرائیلی زندانوں میں 16 سال قید کاٹی ہے۔ فلسطینی قانون کے تحت وہ درجہ اول کے ان سابق اسیران میں شامل ہیں جو  فلسطینی اتھارٹی کی امداد کے مستحق ہیں۔

سابق اسیر سلیمان ابو سیف نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسیران اور ان کے اہل خانہ کی امداد روک کر فلسطینی اتھارٹی نے نہ صرف قانون کی خلاف ورزی کی بلکہ اخلاقی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔

مختصر لنک:

کاپی