جمعه 15/نوامبر/2024

انتفاضہ تحریکوں کے روح رواں فلسطینی طلباء کہاں ہیں؟

بدھ 26-جولائی-2017

سابق سرائیلی وزیراعظم ایرئیل شیرون نے سنہ 2000ء میں مسجد اقصیٰ میں دھاوا بولا تو پورا فلسطین غم وغصے سے لبیرز تھا۔ فلسطینی جامعات کے طلباء طالبات شیرون کی اس مذمو اور ناپاک حرکت کےخلاف سراپا احتجا تھی اور طلباء نے انتفاضہ الاقصیٰ میں سب سے بڑھ کر اپنا خون پیش کیا اور قربانیاں دیں۔

فلسطینی قوم کبھی30 ستمبر 2000ء کو غرب اردن کے شمالی شہر نابلس کے جنوبی قصبے حوارہ چیک پوسٹ کے قریب واقع جامعہ النجاح سےنکلنے والی اس ریلی کو نہیں بھلا پائے گی جو انتفاضہ الاقصیٰ کی پہلی چنگاری ثابت ہوئی۔ اس ریلی میں شامل دو فلسطینی طلباء نے اپنی جانوں نے نذرانے پیش کر کے انتفاضہ الاقصیٰ کو ایسی اٹھان دی کہ وہ کئی سال تک پوری شدت کے ساتھ جاری رہی جس کے دوران اگرچہ فلسطینی شہریوں کا بے دریغ خون بہایا گیا مگرصہیونی ریاست کی چولیں ہلا دیں۔

اسکینر کےمعرکے میں طلباء کہاں ہیں؟

انتفاضہ میں شدت آتے ہی فلسطینی جامعات کے طلباء کے شہداء اور فدائی حملہ آوروں کی ایک فوج سامنے آگئی تھی۔ بم تیار کرنے والے ماہرین، دھماکہ خیز مواد تیار کرنے والے انجینیر اور سیاسی قایدین اس کے علاوہ تھے۔

انتفاضہ الاقصیٰ کے 17 سال کے بعد آج اسرائیلی انتظامیہ نے آج ایک بار پھر مسجد اقصیٰ کے باہر اسکینر، الیکٹرانک گیٹ اور اسمارٹ کیمرے نصب کرنا شروع کیے ہیں۔ مگر اب کی بار فلسطینی جامعات کے طلباء کی طرف سے قبلہ اول کے دفاع کے لئے وہ تحریک نہیں اٹھی جو ماضی میں فلسطینی طلباء کا خاصہ تھی۔

انتفاضہ الاقصیٰ کے بعد ایسی کیا تبدیلی ہوئی کہ جامعات کے طلبا نے اپنا کردار ادا کرنے کا سلسلہ ترک کردیا۔ جامعات کے طلباء جو کسی دور میں ایک قبل اول کی محافظ فورس ہوا کرتے تھے آج غائب ہیں۔

فلسطینی صحافی اور تجزیہ نگار محمد ابو علان کا کہنا ہے کہ ’جو لوگ یہ پوچھتے ہیں کہ نصرت الاقصیٰ کے لیے ماضی کی طرح موثر تحریک کیوں نہیں چل رہی تو میں اس کا جواب یہ دوں گا کہ فلسطینی طلباء کے نصاب تعلیم میں جدو جہد آزادی فلسطین سے متعلق وہ مواد نہیں رہا جو ماضی میں ایسی تحریکوں کو ابھارنے کا ذریعہ تھا۔ اس کے علاوہ فلسطینی طلباء تنظیموں کی ترجیحات اور رحجان بھی تبدیل ہو رہا ہے۔ فلسطینی مزاحمتی تحریکوں کے سوا باقی فلسطینی دھارے آہستہ آہستہ اپنے قومی کردار سے دور ہٹتے دکھائی دیتے ہیں۔ کسی دور میں یہ تمام قومی سماجی تحریک کے بازو ہوا کرتے تھے مگر اب ان کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔

ماضی  کا گم گشتہ کردار

فلسطینی تحریک آزادی کی تاریخ مرتب کرنے والے مورخین  فلسطینی طلباء کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھیں گے۔ درس گاہوں کے طلباء ہی دراصل اس تحریک کا عنوان اور مرکز محور ہوا کرتے تھے۔ انہی طلباء کے اندر سے فلسطین کی سیاسی اور عسکری قیادت ابھر سامنے آتی اور صہیونی ریاست کے خلاف شروع ہونے والی تحریکوں میں طلباء گروپ ایک بیش قیمت دھاروں کے طور پر جانے جاتے تھے۔

جامعہ النجاح میں طلباء کونسل کے سابق چیئرمین علاء حمیدان نے ’مرکزاطلاعات فلسطین‘ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ فلسطینی طلباء میں قضیہ فلسطین، اس کے اہم پہلوؤں اور تحریک آزادی کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے میں کئی دھاروں کا کردار رہا ہے۔ اب ان دھارون کی طرف سے قومی مفادات کے حامل معاملات سے توجہ ہٹ کر شخصی نوعیت کے مسائل میں الجھ گئی ہے۔

حمیدان نے کہا کہ طلباء میں قومی نوعیت کی تحریک میں موثر کردار کا فقدان فلسطینی سماج میں ہونے والی تبدیلی کا عکاس ہے اور گذشتہ دس برس سے فلسطینی معاشرے میں لوگ ایک نئے انداز میں سوچنے لگے ہیں۔ ان نئے افکار میں اجتماعی قومی معاملات پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے شخصی اور انفرادی نوعیت کے غیراہم معاملات کو زیادہ اہمیت دی جانے لگی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ طلباء کے نمائندہ اداروں میں وحدت کا بھی فقدان ہے۔ ماضی میں جب بھی فلسطینی قوم کسی اجتماعی المیے کا شکار ہوئی تو اس کے طلباء دھارے تمام اختلافات بھلا کر یک جان ہوتے تھے مگر اب قومی وحدت کا جذبہ کافی حد تک ماند پڑ چکا ہے۔

حمیدان کا کہنا ہے کہ طلباء تحریک کو موثر بنانے کے لیے جامعات کی سطح پر طلباء میں قومی ایشوز کے حوالے سے شعور اور آگہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

سہ جہتی ہدف

فلسطینی طلباء تحریک کو کم زور کرنے والے دیگر عوامل میں اسرائیل کا بھی اہم کردار ہے۔ فلسطینی طلباء کی نمائندہ شخصیات کو اسرائیلی فوج بغیر کسی الزام کے حراست میں لے کرانہیں انتظامی قید کے تحت پابند سلاسل کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ فلسطینی اتھارٹی کے نام نہاد سیکیورٹی ادارے بھی فلسطینی طلباء کو کو زدو کوب کرنے، حراست میں لینے اور انہیں بغیر کسی وجہ کے جیلوں میں ڈالنے کی مذموم پالیسی پر عمل پیرا ہے۔

فلسطینی جامعات کی انتظامیہ کی طرف سے طلباء کی اجتماعیت کو نقصان پہنچانے کی کا ذریعہ بنی ہے۔ انتظامیہ کی طرف سے بعض ایسے فیصلے کیے گئے جس کے نتیجے میں طلباء کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کی قومی ایشوز کےحوالےسے سرگرمیاں متاثر ہوئیں۔ وارننگ، دھمکیاں اور طلباء کو تعلیمی سہولیات سے محروم کرنا جیسے عوامل نے بھی طلباء کے کردار کو متاثر کیا ہے۔

مختصر لنک:

کاپی