قابض صہیونی افواج نے نہ صرف مسجد اقصیٰ میں فلسطینی عبادت گذاروں کے داخلے پر ناروا پابندیاں عاید کر رکھی ہیں بلکہ پرانے بیت المقدس شہر اور حرم قدسی کے اطراف کے کئی دیہات، قصبے اور فلسطینی کالونیاں صہیونی فوج کی چھاؤنیوں کا منظر پیش کررہی ہیں۔ شہر کے چپے چپے پر ہزاروں صہیونی فوجی، پولیس اور خفیہ اداروں کے اہلکار تعینات ہیں۔ ان کی تعیناتی کا مقصد ام الفحم کے ان تین فلسطینی نوجوانوں کے فدائی حملے میں دو یہودی فوجیوں کی ہلاکت کا بیت المقدس کےشہریوں سے بدلہ لینا ہے۔
بیت المقدس کے مقامی شہریوں کا کہنا ہے کہ وہ گھروں سے نکلنے سے قاصر ہیں۔ اسرائیلی فوج کو جہاں بھی دو یا تین فلسطینی ایک ساتھ دکھائی دیتے ہیں ان پر آنسوگیس کی شیلنگ، فائرنگ یا دھاتی گولیوں کی بوچھاڑ کردی جاتی ہے۔ یوں وقفے وقفے سے فلسطینی شہری اسرائیلی فوج کی ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بن کر زخمی ہو رہے ہیں۔ ان کا پاک خون مقدس سرزمین پر گرتا اور آنسوگیس کی شیلنگ سے ان کے آنکھوں سےبہنے والا پانی بھی دفاع قبلہ اول کے لیے القدس کی سرزمین میں جذب ہوجاتا ہے۔
آہنی محاصرہ
پرانے بیت المقدس سے تعلق رکھنے والے فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج اور پولیس کی بھاری نفری نے مسجد اقصیٰ کو ملانے والے راستوں، قصبوں، چوراہوں اور گلیوں کا آہنی محاصرہ کررکھا ہے۔
ایک مقامی شہری خدیجہ القمبر نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پرانے شہر میں صہیونی فوج کی ناکہ بندی اس حد تک سخت ہوچکی ہے کہ فلسطینیوں کا دو قدم آسانی سے چلنا محال ہے۔ مستقل چیک پوسٹوں کے علاوہ بڑی تعداد میں ہنگامی ناکے لگائے گئے ہیں۔ رہی سہی کسر گشت کرنے والی مسلح اسرائیلی فوج نے نکال دی ہے۔ یوں پرانے شہرمیں اسرائیل نے ایک طرح کا غیر اعلانیہ کرفیو لگا رکھا ہے۔ گھر سے باہر نکلتے ہی فلسطینیوں کو اپنی شناخت کے کئی اور بار بار مراحل سے گذرنا پڑتا ہے۔ یہ اسرائیلی فوج اور پولیس پر منحصر ہے کہ وہ کسی فلسطینی کو چھوڑ دیں ورنہ دس منٹ کی مسافت فلسطینیوں کو کئی کئی گھنٹوں میں طے کرنا پڑتی ہے۔ تلاشی کے دوران شہریوں سے انتہائی توہین آمیز اور شرمناک سلوک کیا جاتا ہے۔ ان کے سامان کی تلاشی کے ساتھ ساتھ جیبوں تک کی تلاشی لی جاتی ہے۔ بعض فلسطینیوں کو سرعام کپڑے اتارنے پرمجبور کرکے صہیونی فوج اپنا مکروہ چہرہ بے نقاب کررہی ہے۔
القمبر کا کہنا تھا کہ اسرائیلی پابندیوں کے باعث بیت المقدس کی اقتصادی اور تجارتی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔ سیاحوں کا آنا بند ہوچکا ہے۔ شہری گھروں سےنکلنے سے قاصر ہیں۔ ہرشخص خوف کا شکار ہے۔
بیت المقدس کی خاتون نے غرب اردن کے فلسطینیوں پر زور دیا کہ وہ قبلہ اول کے دفاع کے لیے نکالی جانے والی ریلیوں میں شرکت کے لیے بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور خود مسجد اقصیٰ کےباہر جاری دھرنے میں بھی شریک ہوں۔
ایک مقامی شہری مفید الرشق نے کہا کہ پرانے بیت المقدس کا اب نقشہ ہی بدل چکا ہے۔ حالات انتہائی خراب ہیں اور خراب سے خراب تر کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
مشکل مرحلہ
بیت المقدس کے ایک مقامی تاجر احمد الرازم نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بیت المقدس شہر اور اس کے مکین سنہ 1967ء کے بعد انتہائی مشکل مرحلے سے گذر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کا سب سے بڑا مسئلہ اسرائیلی فوج کی موجودگی اور شہر کی ناکہ بندی ہے۔ بیت المقدس میں فلسطینی تاجر برادری کی مشکلات کا آغاز بہت پہلے ہوگیا تھا مگر پچھلے دو سال میں تجارتی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں الرازم نے کہا کہ مسجد اقصیٰ پر اسرائیلی پابندیاں تو جو ہیں سو ہیں مگر صہیونی فوج نے نسل پرستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پورے شہر کو ایک بند کوٹھڑی میں تبدیل کررکھا ہے۔ فلسطینی شہریوں کے مسجد اقصیٰ میں نماز پر پابندیوں کے ساتھ ساتھ ان پر بازاروں میں سودا سلف لانے پر بھی پابندیاں عاید کی جا رہی ہیں۔ لوگ گرفتاری اور اسرائیلی فوج کی طرف سے حملوں کے خوف سے بازاروں کا روخ کرنے سے بھی کتراتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں فلسطینی تاجر کا کہنا تھا کہ مقبوضہ بیت المقدس اسرائیلی فوج کی ناکہ بندی میں گھرا ہوا ہے۔ میری آنکھوں سے مسلسل آنسو رواں ہیں۔ میں نے بیت المقدس کو ایسے دکھی حالات میں کبھی نہیں دیکھا جیسا اب دیکھ رہا ہے۔ انہوں نے فلسطینی نوجوانوں پر زور دیا کہ وہ گھروں سے نکلیں اور قابض فوج کی پابندیوں کو توڑ قبلہ اول پہنچیں اور بازاروں کا بھی رخ کریں۔