فلسطینی وزیر برائے امور بیت المقدس ڈاکٹر عدنان الحسینی کہاہے کہ صہیونی ریاست کی طرف سے بیت المقدس اوروہاں کی فلسطینی آبادی پرمسلط کردہ پابندیوں کےنتیجے حالات قابو سےباہر ہیں اور صہیونی اقدامات کے باعث القدس کی حالت اور عوامی غم وغصے کے باعث بیت المقدس آتش فشاں بن کر پھٹنے والا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کودیے گئے انٹرویو میں ڈاکٹر الحسینی نے کہا کہ بیت المقدس کے عوام کو بدترین انتقامی کارروائیوں کا سامنا ہے۔ صہیونی ریاست کے تمام اقدامات مایوسی، دشمن کی کمزوری، انتقامی پالیسی ، بیت المقدس پر قبضے کے لیے پچاس سال سے جاری سازشوں میں ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اپنے ان جرائم کی پردہ پوشی کے لیے دشمن وحشیانہ طاقت کے استعمال، نہتےفلسطینیوں کے خلاف انتقامی کارروائیوں کے لیے سیاسی اور سیکیورٹی کی نام نہاد کارروائیوں کا سہارا لے رہا ہے۔
ڈاکٹرالحسینی نے کہا کہ بیت المقدس تباہی کےدھانے پر پہنچ چکا ہے۔ اسرائیل کی انتہا پسند حکومت بیت المقدس کی موجودہ صورت حال کو مزید کشیدہ کرنے کی سازشوں میں مصروف ہے۔ لگتا نہیں کہ حالیہ فضاء میں کوئی تعمیری کام آگے بڑھایا جاسکے۔
انہوں نے کہا کہ حال ہی میں اسرائیلی صدر روؤف ریفلین کا دورہ باب العامود یہودی آباد کاروں اور اسرائیلی فوج کی بیت المقدس میں کارروائیوں کے لیے حوصلہ افزائی کی ناکام کوشش ہے۔
اسرائیلی صدر نے بیت المقدس میں باب العامود کا دورہ کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے بیت المقدس میں یہودی آبادی کو فلسطینیوں کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے اور ان مشکلات کو کم کرنے کے لیے بیت المقدس کے عوام پر نئی پابندیاں عاید کی جا رہی ہیں۔
فلسطینی وزیر کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی دیگر سازشوں اور چالوں میں مسجد اقصیٰ کو یہویانے اور بیت المقدس پر یہودیوں کا غلبہ کرنے کی سازشیں سر فہرست ہیں۔ فلسطین کے اصلی باشندوں کو مشکلات سے دوچار کرنے کے ساتھ ساتھ عبادت کی آڑ میں ہزاروں یہودیوں کو بیت المقدس میں لانے کی کوششوں کے پیچھے القدس کے اسلامی تشخص کو ختم کرنا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں فلسطینی وزیر کا کہنا تھا کہ صہیونی نیچے سےاوپر تک صرف اپنے مفادات کے پیش نظر کام کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک دوسروں[فلسطینیوں] کی کوئی حیثیت نہیں۔ گویا ان کے نزدیک بیت المقدس میں اور کوئی قوم سرے سے اپنا کوئی وجود ہی نہیں رکھتی۔ یہی وہ سوچ اور نظریہ ہے جو صہیونیوں کو نہ ختم ہونے والے اشکالات سے دوچار کرتا ہے۔ جہاں تک فلسطینیوں کا تعلق ہے تو وہ بیت المقدس میں مسلمہ راسخ اور ثابت شدہ حقوق رکھتے ہیں جن سے دستبر داری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ فلسطینی قوم کبھی یہ با قبول نہیں کرے گی کہ بیت المقدس کسی غیرقوم کے پاؤں تلے روندا جائے۔
ڈاکٹر عدنان الحسینی کا کہنا ہے کہ بیت المقدس میں فسلطینیوں کی طرف سے احتجاجی تحریک نے بیت المقدس میں اسرائیل کی سیکیورٹی کے نام نہاد اقدامات کو ناکام ثابت کیا ہے۔ صہیونی دشمن کی کارروائیوں کے نتیجے میں بیت المقدس بیت ہراطراف سے محصور اور تنہا ہوچکا ہے۔ اس کے باشندے بدترین مسائل اور مصائب کا شکار ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ بیت المقدس کا محاصرہ اور وہاں کے عوام کے مصائب و آلام کو ختم کیا جائے۔ فلسطینی قوم کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جائےشہر مقدس اور اس کے باسیوں کے وقار کا تحفظ کیا جائے۔
فلسطینی وزیرکا کہنا تھا کہ باب العامود میں قیمتی درختوں کے اکھاڑے جانے کا سلسلہ بھی انتقامی پالیسیوں کا حصہ ہے۔ بیت المقدس بالخصوص باب العامود کے مقام پر درختوں کی اکھاڑ پچھاڑ شاہراہ سلطان سلیمان کی خوبصورتی کو تباہ کرنے اور شہر میں ماحولیات آلودگی میں اضافہ کرنے کی دانسہ کوشش ہے۔ صہیونی دشمن نام نہاد سیکیورٹی اقدامات کی آڑ میں باب العامود کے قیمتی درخت بھی کاٹے اور اکھاٹے جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جب سے صہیونی ریاست نے مقبوضہ بیت المقدس پراپنا غاصبانہ تسلط قائم کیا ہے تب سے پرانے بیت المقدس، شہر کےشمالی اور جنوبی حصے اور مسجد الاقصیٰ المبارک کو یہودیانے کی سازشیں عروج پر ہیں۔
بیت المقدس کے تشخص اور اس کےوجود کو لاحق خطرات نئے نہیں تاہم پچھلے پچاس سال کے دوران صہیونی دشمن نے القدس پر یہودی اور عبرانی چھاپ مسلط کرنے، القدس کے باشندوں کے عزم وثبات اور اس کی اسلامی اور مسیحی تہذیب وثقافت کو مسخ کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور صرف کیا ہے۔
عدنان الحسینی کا کہنا ہے کہ اس وقت القدس کے تاریخی مقامات کےناموں اور جگہوں کی تبدیلی کی کشمکش جاری ہے۔ اسرائیلی حکومتیں بیت المقدس کے مختلف تاریخی مقامات کے ناموں کو خفیہ اور اعلانیہ طور پر تبدیل کرنے میں سرگرم عمل ہیں، ان تمام مجرمانہ اور مکروہ سرگرمیوں کے پیچھے ثقافتی یلغار اور عبرانی تہذیب مسلط کرنے کے سوا اور کچھ نہیں۔ یہی وجہ ہےکہ اسرائیلی دشمن بیت المقدس کے تاریخی، تزویراتی، جغرافیائی اور تہذیبی حلیے کو بدلنے کے لیے کوشاں ہے۔