مقبوضہ بیت المقدس کے اسلامی اور عرب تشخص کے دفاع کے لیے کام کرنے والی ’بین الاقوامی القدس فاؤنڈیشن‘ کی طرف سے ایک رپورٹ جاری کی جا رہی ہے جس میں بیت المقدس کو یہودیانے کے دسیوں چونکا دینے والے حقائق بیان کیے گئے ہیں۔
یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں منظرعام پرلائی جا رہی ہے جب بیت المقدس کے مشرقی حصے پرقابض صہیونی ریاست کے ناجائز تسلط کو 50 سال مکمل ہوگئے ہیں۔ رپورٹ میں بیان کردہ پچاس حقائق القدس پر قبضے کے پچاس سالہ قبضے سے نسبت رکھتے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پورا فلسطین بالخصوص بیت المقدس یہودی توسیع پسندی اور استعماری جارحیت کی بدترین اشکال کا سامنا کررہا ہے۔ القدس کو لاحق صہیونی استعماری خطرات کی معاصر انسانی تاریخ میں کوئی مثال نیہں ملتی۔ صہیونی ریاست ریاست القدس کو یہودیانے کے لیے بین الاقوامی قوانین، عالمی اصولوں، بین الاقوامی انسانی حقوق اور عالمی اداروں کی قراردادوں کو کھلم کھلا نظرانداز کرتے ہوئے تہویدی ہتھکنڈوں کے لیے جعل سازی کا سہارا لے لی ہے۔
رپورٹ کےمطابق مقبوضہ بیت المقدس کے مغربی حصے پر صہیونی ریاست نے سنہ 1948ء میں ناجائز تسلط قائم کیا۔ اس کےبعد صہیونی حکومتیں تواتر کے ساتھ تاریخی حقائق کو منظم جعل سازی سے مسخ کرتے ہوئے شہر میں یہودیوں کو بسانے اور فلسطینی آبادی کو نکال باہر کرنے میں سرگرم رہیں۔ اپنے ان جرائم کو آگے بڑھانے کے لیے کبھی محاصرے جیسے جرائم کا سہارا لیا جاتا اور کبھی فلسطینی آبادی پر دھاووں کے ذریعے انہیں ہراساں کرنے، فلسطینیوں کے مکانات کی مسماری اور ان کے دفاع کے لیے کام کرنے والے اداروں اور تنظیموں کا تعاقب جیسے مجرمانہ ہتھکنڈے آزمائے جاتے رہے۔
آبادی اور زمین
انٹرنیشنل القدس فاؤنڈیشن کی طرف سے تیار کردہ پچاس نکاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بیت المقدس اراضی کے اعتبار سے وہ بڑا فلسطینی شہر ہے جس میں سب سے زیادہ فلسطینیوں کو جبرا بے دخل کیا گیا۔ صہیونی ریاست کی طرف سے القدس کو یہودیانے کے لیے تین نکات پر توجہ مرکوز کی گئی۔ بیت المقدس کے باشندوں کو جبرا بے دخل کرنا، یہودیوں کو القدس میں آباد کرنا اور بیت المقدس کے اسلامی، تاریخی اور فلسطینی تشخص کو تباہ کرنا۔
رپورٹ کے مطابق مذکورہ تین مذموم عزائم و مکروہ مقاصد کی تکمیل کے لیے صہیونی ریاست کی طرف سے کئی اور اہداف مقرر کیے گئے۔ ان میں بیت المقدس کے اطراف میں سیکیورٹی حصار قائم کرنا، جگہ جگہ فوجی مراکز کا قیام، یہودی کالونیوں کے لیے نئی سڑکوں کا قیام، یہودی آباد کاروں کی تعداد میں اضافہ، عرب آبادی کی فطری نشو نما میں رکاوٹیں، فلسطینیوں کو یہودیوں کے مقابلے میں اقلیت میں تبدیل کرنے، القدس کو دوسرے فسطینی شہروں سے الگ تھلگ کرنے اور مقدس شہر کو صہیونی ریاست کا دارالحکومت قرار دینے کے مکروہ ہتھکںڈوں کا استعمال جیسے حربے استعمال کیے گئے۔
انہی حربوں میں صہیونی ریاست کی طرف سے مسجد اقصیٰ کی سیادت کو چیلنج کرتے ہوئے یہودی آباد کاروں کو مقدس مقام میں دخل ہونے کی سہولت فراہم کرنا، یہودیوں کے لیے عبادت کی جگہ اور وقت کا تعین کرنا، بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ کے دفاع کے لیے اکم کرنے والی تنظیموں پر پابندیاں عاید کرنا، مسجد اقصیٰ سے فلسطینیوں کے ربط کو ختم کرنے اور قبلہ اول کو یہودیوں اور مسلمانوں میں زمانی اور مکانی اعتبار سے تقسیم کرنا۔
مسجد اقصیٰ کو ہیکل سلیمانی میں تبدیل کرنے کے لیے سرگرم تنظیموں کی سرکاری سرپرستی کرتے ہوئے انہیں کھل کھیلنے کی اجازت دینا، یہودی مذہبی تہواروں[عیدوں] کے مواقع پر یہودیوں کو قبلہ اول میں داخل ہونے کا موقع فراہم کرنا، اسرائیلی سوسائٹی کے تمام طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد کو قبلہ اول پر دھاووں کی دعوت دینا، مسجد اقصیٰ کے پہرے داروں اور نمازیوں پر عرصہ حیات تنگ کرتے ہوئے انہیں قبلہ اول سے دور کرنے کی سازشیں کرنا، قبلہ اول اور حرم قدسی کے اسٹیٹس کو کو تبدیل کرنا۔
مسجد اقصیٰ کی تعمیرو مرمت کے کاموں میں رکاوٹیں کھڑی کرنا، فلسطینی محکمہ اوقاف کو اس کی ذمہ داریوں سے روکنا، مسجد اقصیٰ اور حرم قدستی پر صہیونی ریاست کی اجارہ داری کے قیام کے لیے نام نہاد پارلیمنٹ سے ظالمانہ قوانین منظور کرانا اور موجودہ صورت حال کو تبدیل کرنا،
مسجد اقصیٰ کی بنیادوں تلے کھدائی کرنا، پرانے بیت المقدس کے کھنڈرات کی کھدائی کرکے ایک نیا شہر آباد کرنے کی سازشیں کرنا، مسجد اقصیٰ کے اطراف میں سرنگوں کا جال بچھانا، مسجد اقصیٰ کے اسلامی اور فلسطینی تشخص کو مسخ کرنے اور جعل سازی کی لابنگ کے لیے نام نہاد ادارے تشکیل دینا۔
خیال رہے کہ سنہ 2016ء کے اختتام پرسامنے آنی والی رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ مسجد اقصیٰ کے اطراف اور اس کی بنیادوں تلے 63 سرنگیں کھودی جا چکی ہیں۔
اس رپورٹ میں بیت المقدس میں یہودی کالونیوں کی تفصیلات بھی شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق صہیونی ریاست نے القدس کو یہودیانے کے لیے دسیوں غیرقانونی کالونیاں بنا رکھی ہیں۔ فلسطینیوں کے مکانات کی مسماری بھی القدس کویہودیانے کا ایک مکروہ صہیونی حربہ ہے۔ سنہ 2000ء سے 2016ء کے اختتام تک بیت المقدس میں فلسطینیوں کے 1396 مکانات کو غیر قانونی قرار دے کر انہیں مسمار کرچکے ہیں۔
فلسطینیوں کی شناخت مٹانے کی سازشیں
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صہیونی ریاست ایک منظم سازش کے تحت بیت المقدس کے فلسطینی باشندوں کا اسلامی تشخص اور ان کی فلسطینی شناخت ختم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ بیت المقدس کے فلسطینی باشندوں کی گرفتاریاں، ان کی شہر بدری، گھروں پر جبری نظربندی اور سفر سے روکنا جیسے حربے القدس کے باشندوں کی شناخت کو مٹانے کے ہتھکنڈے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق صہیونی ریاست نہ صرف بیت المقدس کے مسلمانوں بلکہ مسیحی برادری کو بھی وہاں سے نکال باہر کرنے کے لیے مکروہ ہتھکنڈوں کا استعمال کر رہی ہے۔ بیت المقدس کے فلسطینی مسلمان اور عیسائی باشندوں کو تعلیم، صحت اور دیگر بنیادی سہولیات سے محروم رکھا جا رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق فلسطینیوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کے لیے ان پرمعاشی پابندیاں عاید کرنا بھی ایک مکروہ حربہ ہے۔ بیت المقدس میں اسرائیلی پابندیوں کے نتیجے میں 31 فی صد شہری بے روزگار اور 76 فی صد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسرکرنے پر مجبور ہیں۔
بیت المقدس کی عرب کالونیوں میں یہودی کالونیوں کا تناسب 40 فی صد اور مشرقی بیت المقدس میں یہودی آباد کاروں کا تناسب 39 فی صد تک پہنچ چکا ہے۔ فلسطینیوں کی املاک اور اراضی پرپابندیاں عاید کی جاتی ہیں جب کہ یہودیوں کو فلسطینیوں کی املاک ہتھیانے اور ان پر مرضی کے مطابق تعمیرات کرنے کی کھلی چھٹی حاصل ہے۔