جمعه 15/نوامبر/2024

’بھکاری مافیا‘ مستحقین اور خیراتی عمل کے لیےتباہ کن!

جمعہ 30-جون-2017

دنیا بھر کی طرح فلسطینی قوم کو بھی  منظم بھکاری مافیا کا سامنا ہے۔ لوگوں سے لپٹ لپٹ کر بھیک مانگنے اور دست سوال دراز کرنے والے یہ پیشہ ور بھکاری حقیقی معنوں میں ’ننگ آدمیت‘ ہیں۔ ان کی وجہ سے مستحق نادار شہری اور خیراتی عمل دونوں بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔

’دے جا سخیا راہ خدا‘ جیسا رٹا رٹایا جملہ پیشہ ور بھکاری مافیا کا سب سے آسان اور مقبول نعرے کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔غریبوں کا رنگ روپ اختیار کرکے یہ بھکاری مردو خواتین نام نہاد حیلوں بہانوں سے شہریوں کی جیپوں سے پیسے نکالنے میں کامیاب رہتے ہیں مگر اس کا منفی اثر ان مستحق شہریوں پر پڑتا ہے جوعزت نفس کے تحت کسی کے سامنے دست سوال پھیلانے کو اپنے لیے عار سمجھتے ہیں۔ یہ مافیا ایسے خود دار شہریوں اور خیرات دینے والے مخیر حضرات کے لیے شدید خطرہ ہے۔

مثال کے طور پر شمالی فلسطین کے سنہ 1948ء کے مقبوضہ شہر حیفا کی ایک جامع مسجد کے باہر بیٹھے  ایک شہری نے سرطان کا مریض ہونے کا ناٹک رچایا۔  وہ نمازیوں سے یہ کہہ کر رقوم بٹورتا رہا کہ اس کا تعلق غزہ کی پٹی سے ہے اور وہ کینسر کا مریض ہے۔ وہ اپنے علاج کے لیے لوگوں سے پیسے بٹورنے پر مجبور ہے۔

ایسے پیشہ ور بھکاری  ضرورت مند افراد کا روپ دھار کر شہریوں کی ہمدردیاں سمیٹنے کے مکروہ حربے اختیار کرتے ہیں۔

مقامی فلسطینی شہریوں کا کہنا ہے کہ بھکاریوں کا بھیک مانگنے کا ایک طریقہ واردات یہ ہے کہ وہ کسی ایسے علاقےمیں چلے جاتے ہیں جہاں انہیں جاننے والا کوئی نہیں ہوتا۔ وہاں وہ خود کو بیمار، معذور یا کسی بھی حوالے سے ضرورت مند ظاہر کرکے لوگوں سے پیسے بٹورتے ہیں۔

حیفا کی جامع مسجد کے جس بھکاری نے خود کو غزہ کا کینسر کا مریض قرار دے کر بھیک مانگنی شروع کی تھی وہ ام الفحم کا باشندہ نکلا۔ ام الفحم شہر حیفا سے تھوڑے ہی فاصلے پرہے۔ اس لیے مسجد میں نماز ادا کرنے والے کئی فلسطینیوں نے اس پیشہ ور بھکاری کو پہچان لیا۔

رنگ روپ تبدیل کرکے خود کوضرورت مند ظاہر کرنے والے پیشہ ور بھکاری آپ کو فلسطین کے ہر شہر میں ملیں گے۔ مثال کے طور پر چند روز قبل یہ انکشاف ہوا ہے کہ ایک شخص طولکرم شہر سے روزانہ سپورٹنگ کار پر الطیبہ چیک پوسٹ پر پہنچتا جہاں وہ اپنا عام لباس اتار کر بھکاریوں والے کپڑے پہن کر سنہ 1948ء کے مقبوضہ فلسطینی شہروں میں بھیک مانگنے چلاجاتا۔ شام کو پھر ایک گاڑی اسے اسی چیک پوسٹ سے اٹھاتی غرب اردن کےشمالی شہر طولکرم میں اس کے گھرلے آتی۔

بھکاری مافیاؤں کے منظم نیٹ ورک

مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق مقبوضہ فلسطینی شہروں  بالخصوص غرب اردن اور بیت المقدس کے علاقوں میں پیشہ ور بھکاریوں کے کئی نیٹ ورک سرگرم ہیں۔ یہ لوگ نہایت منظم انداز میں بھیک مانگتے اور لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

الناصرہ شہر کے ایک امام مسجد نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ بہت سے لوگ مساجد اور مقدس مقامات کی تعمیرو مرمت کی آڑ میں لوگوں سے پیسے جمع کرتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ چند ماہ قبل الناصرہ شہر سے ایک چھ رکنی بھکاری گروپ پکڑا گیا جو مساجد کے لیے جعلی کاغذات پر مختلف مساجد کے باہر سے چندے جمع کررہا تھا۔ یہ گروپ کئی ماہ تک سرگرم رہا اور اس نے شہریوں سے خطیر رقم بھی مساجد کی تعمیر کی آڑ میں جمع کرلی تھی۔

ایسی ہی مثالیں غرب اردن میں بھی دیکھنے میں آئیں۔ جنین شہر کے ایک امام مسجد نے بتایا کہ ایک شہر مختلف مساجد کے باہر ہر جمعہ کو اپنے علاج کے لیے بھیک مانگتا۔ اس کا دعویٰ تھا کہ وہ غزہ کی پٹی سے آیا ہے اور کینسر کا مریض ہے۔ کچھ نمازیوں کو اس کے بارے میں شک ہوا تو انہوں نے پولیس کو اس کی شکایت کرنے کی دھمکی دی۔ اس پر بھکاری نے اعتراف کیا کہ وہ بیت المقدس کے قریب الرام قصبےسے تعلق رکھتا ہے۔ وہ کینسر کا مریض بھی نہیں ہے۔

مردوں کے ساتھ ساتھ فلسطینی شہروں میں خواتین کا پیشہ ور مافیا بھی بھرپور طریقے سےسرگرم عمل ہے۔ الخلیل کی خواتین جنین، طولکرم یا بیت لحم کی مساجد، شاہراؤں اور پبلک مقامات پر بھیک مانگتی ہیں۔ بہت سی تواپنے شیرخوار بچے بھی ساتھ رکھتی ہیں۔

فلسطینی پولیس کا کہنا ہے کہ اس نے پیشہ ور بھکاریوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا ہے۔ پیشہ ور بھکاری خواتین میں سے کئی ایسی بھی سامنے آئی ہیں جو کرائے پر دوسری خواتین کے بچوں کو اپنے ساتھ لے کر بھیک مانگتی اور شہریوں سے پیسے نکوالنے کی کوشش کرتی ہیں۔

الرام قصبے کے فلسطینی شہریوں کا کہنا ہے کہ چند روز قبل ایک بھکاری عورت فوت ہوئی تو اس کے گھر سے خطیر رقم برآمد کی گئی ہے۔

خیرات کی حوصلہ شکنی

شہری بہبود کے لیے کام کرنے والے ایک سماکی کارکن احمد ابو بکر نے  مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پیشہ ور بھکاریوں کی وجہ سے مخیر حضرات کا ضرورت مندوں کی مدد  کا جذبہ بری طرح متاثر ہوتا ہے۔ اگر کوئی شہری کسی کی مدد کرنا بھی چاہتا ہے وہ ان پیشہ ور بھکاریوں کی وجہ سے مدد کا حوصلہ نہیں کرپاتا کیونکہ یہ سمجھنا بہت مشکل ہوتا ہے کہ آیا بھیک مانگنے والا واقعی ضرورت مند ہے یا نہیں۔

ایک سوال کے جواب میں ابو بکر نے کہا کہ عطیات دینے والے شہریوں کو عطیہ دیتے وقت اس بات کی پوری تحقیق کرلینی چاہیے کہ وہ جس شخص کی مدد کررہے ہیں آیا واقعی ضرورت مند ہے یا نہیں۔ عطیہ دینا اجرو ثواب کمانے  کے لیے ہوتا ہے اور پیشہ ور بھکاریوں کو پیسہ دینا تو الٹا گناہ کمانے کے مترادف ہے۔ اس لیے تمام متبرعین اور مخیر حضرات کے لیے ضروری ہے کہ وہ بھیک دیتے وقت اس کی تحقیق کرلیں کہ وہ جس کی مدد کررہے ہیں وہ کوئی پیشہ ور بھکاری تو نہیں۔

مختصر لنک:

کاپی