بچوں کی عید کی خوشی اس وقت تک ادھوری اور نامکمل ہوتی ہے جب تک وہ اپنے والدین اور دیگر اقارب سے ’عیدی‘ وصول نہ کریں، مگر اس بات فلسطینی اتھارٹی نے اپنی قوم کے خلاف انتقامی سیاست کا ایسا وار کیا ہے جس کے نتیجےکیا چھوٹے کیا بڑے سب عید کی خوشیوں سے محروم ہوگئے ہیں۔
فلسطینی صدر محمود عباس نے رمضان المبارک سے قبل غزہ کی پٹی کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں تیس سے چالیس فی صد کمی کرکے قوم کو رمضان کا تحفہ دیا۔ ماہ صیام کے دوران غزہ کے عوام کو توانائی اور صحت کے بحران سے دوچار کرنے کے لیے ایندھن بند کیا اور اسرائیل کے ساتھ مل کر غزہ کی بجلی بھی کم کردی۔ فلسطینی اتھارٹی نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ملک و قوم کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے والے شہداء کے یتیم بچوں اور اپنی زندگی کی قیمتی متاع وقت اور جوانیاں صہیونی زندانوں کی سلاخوں کے پیچھے گذارنے والے اسیران کے بچوں کو ملنے والی مالی مراعات ختم کردیں۔
فلسطین کے علاقے غرب اردن میں فلسطینی اتھارٹی کے وزیراعظم رامی الحمد اللہ کے دفتر کے باہر کل عید کے روز بھی متاثرہ اسیران اور شہداء کے ورثاء نے دھرنا دیا۔
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے سابق اسیر احسان سیف الدین نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی کی انتقامی سیاست کے نتیجے میں اسیران اور شہداء کے یتیم بچے اس بار عیدی سے بھی محروم رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی ہماری قوم کی نمائندہ ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ رام اللہ اتھارٹی نے فلسطینی بچوں کی خوشیاں بھی ان سے چھین لی ہیں۔
نابلس سے تعلق رکھنےوالے باسل المصری کا کہنا ہے کہ عیدیہ چھوٹوں اور بڑوں سب کی اجتماعی خوشی اور مسرت کا ذریعہ ہوتی ہے۔ بڑے خوشی سے بچوں میں عیدی بانٹے ہیں اور بچے اپنے اقارب سےعیدی ملنے کی توقع رکھتے ہیں۔
نابلس کے ایک بچے اشرف سلامہ نے کہا کہ اس نے عیدی کے پیسوں سے پلاسٹک کی بندوق خرید کی جس سے وہ اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر کھیلتا ہے۔اس کا کہنا تھا کہ وہ عیدی کے پیسوں سے کھلونے خرید کر بہت خوش ہوتے ہیں مگر اس بار بہت سے بچوں کو عیدی نہیں مل سکی۔
عیدی کی تاریخ
فلسطین میں عید کے موقع پر بچوں میں عیدی کی تقسیم کی روایت صدیوں پرانی ہے۔ غالبا یہ روایت فلسطین میں مصر سے ممالیک کے دور میں داخل ہوئی۔ ہر مملکوکی فرمانروا اپنے گورنروں، فوجیوں اور ریاستی ملازمین میں عیدی تقسیم کیا کرتا جسے اس دور میں ’الجامکیہ‘ کہا جاتا۔
بادشاہ سلامت سنہری اور چاندی کے دینار دینار تقسیم کرتے۔ اس کے علاوہ شاہی کھانے بھی بہ طور عیدی لوگوں میں تقسیم کیے جاتے۔ خلافت عثمانی کےدور میں عیدی بڑوں کے بجائے بچوں کے لیے خاص کردی گئی۔ یہ روایت حکومتی عمال سے ہوتی ہوئی ہرعام وخاص تک پہنچی اور لوگ اپنے عزیزو اقارب کے بچوں کو عید کے موقع پربہ طورتحفہ عیدی دینے لگے۔ یہ روایت آج تک فلسطین میں جاری ہے۔
عیدی اور نئے ملبوسات
عید کی صبح بچوں میں صرف نقدی کی تقسیم ہی عید نہیں کہلاتی بلکہ ضرورت مند بچوں میں عید کی صبح نئے کپڑے بھی تقسیم کیے جاتے ہیں۔ بہت سے والدین اپنے بچوں کے لیے نئے کپڑے نہیں خرید سکتے اور وہ استعمال شدہ ’لنڈے‘ کےکپڑے خرید کر بچوں کو دیتے ہیں۔
قلندیا کیمپ کے ناصر ابو العز نے بتایا کہ لنڈے کے کپڑوں کی قیمت نئے کپڑوں کی نسبت کافی کم ہوتی ہے۔ غیب شہری اپنے بچوں کو عید کے موقع پر استعمال شدہ کپڑے ہی خرید کردیتے ہیں۔
نابلس کےمعمر شہری محسن صوالحہ نے کہا کہ عیدی صرف بچوں کے لیے مختص نہیں ہوتی۔ بہت سے شہری عید پر اپنے بڑے اقارب میں بھی عیدی تقسیم کرتے ہیں۔ وہ پہلے سے طے کرتے ہیں کہ یہ عیدی بچوں، یہ بچیوں، یہ شادی شدہ عورتوں، یہ دادی، یہ پھوپھی اور یہ خالا وغیرہ کے لیے ہے۔ اسی طرح بہت سے شہری نقدی کے بجائے اپنے رشتہ داروں کو نئے کپڑے، جوتےیا دیگر ان کی ضرورت کی اشیاء خرید کر دیتے ہیں۔ گھروں میں کام کرنے والے ملازمین کے لیے عیدی اور سحری کے وقت بیدار کرنے والے رضاکاروں کے لیے بھی عیدی مختص کی جاتی ہے۔