جسمانی طور پر معذور بچے پڑھائی کی طرف توجہ نہیں دے پاتے۔ اگر کوئی بچہ ہاتھوں سے پیدائشی طور پرمحروم ہو تو اس کے لکھنےلکھانے کا شوق پورا کرنا ممکن نہیں، مگر فلسطین کی ایک نونہار بچی نے دونوں ہاتھوں سے معذوری کے باوجود تحصیل علم کا قابل رشک شوق کا مظاہرہ کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ اگر جذبہ اور ہمت ہو تو جسمانی معذوری انسان کی ترقی کی راہ میں حائل نہیں ہوسکتی۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق معذوروں اور تندرست و توانا طلباء کے لیے ایک نمونہ کا درجہ رکھنے والی یہ باہمت فلسطینی بچی ’آیہ مسعود‘ کے نام سے جانی جاتی ہیں۔
آیۃ مسعود نے اپنی تعلیم کا آغاز آج سے نہیں کیا بلکہ وہ انٹرمیڈیٹ کلاس کاامتحان دے رہی ہیں۔ اس نے لکھنے کے لیے ہاتھوں کی معذوری کو آڑے نہیں آنے دیا بلکہ پوری ہمت اور جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے لکھنے کا کام اپنے پاؤں سے لیا ہے۔
وہ کمرہ امتحان میں اپنی کرسی پر بیٹھ کر اپنے پاؤں سے پرچہ حل کرتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ نہ صرف انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کرے گی بلکہ وہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے بھی اپنا مشن جاری رکھے گی۔
مرکاطلاعات فلسطین کے نامہ نگار کے مطابق غزہ کی پٹی میں قائم رامز فاخرہ انٹرمیڈیٹ اسکول برائے طالبات میں قائم امتحانی مرکز میں سیکڑوں طالبات پیپر دینے پہنچیں تو ان کے ہاتھوں میں قلم اور پییر دینے کے دیگر لوازمات تھے۔ انہی ہی کےبیچ ہاتھوں سے محروم آیۃ مسعود بھی آئیں جو ہاتھوں سے محروم ہیں مگر بہت سی دوسری لڑکیوں سے زیادہ ہونہار اور لائق ہیں۔
آیۃ اپنے ہاتھ میں نہیں بلکہ اپنے پاؤں میں قلم پکڑ کر جوابی کاپی پر سوالوں کے جواب قلم بند کرتی ہیں۔ بہت سے لڑکیاں جنہیوں نے آیۃ کو پہلی بار دیکھا وہ حیران تھیں کہ وہ تو ہاتھوں سے محروم ہے بھلایہ پیپر میں لکھے گی کیسے۔ مگر آیۃ نے اپنے پاؤں سے پوری رفتار اور انتہائی خوبصورت تحریر سے انہیں حیران کر دیا۔
غزہ وزارت تعلیم نے آیۃ مسعود کی معذوری کے پیش نظراس کے لیے ایک خصوصی کرسی کا اہتمام کیا ہے۔ جس پر وہ بیٹھ کر اطمینان کے ساتھ پاؤں کی مدد سے پرچہ حل کرتی ہے۔
پرعزم طالبہ کا کہنا ہے کہ وہ معذور رہ کر معاشرے اور اپنے اقارب پر بوجھ نہیں بننا چاہتی بلکہ معاشرے کی ایک کار آمد شہری بن کر عزت کے ساتھ رہنا اور جینا چاہتی ہے۔
غزہ کی پٹی میں محکمہ تعلیم کے ڈائریکٹر کمال ابو عون نے معذور آیۃ مسعود کے تحصیل علم کے جذبے کو سراہا اور کہا کہ آیۃ طلباء سمیت تمام افراد معاشرہ کے لیے ایک قابل عمل نمونہ ہے۔ اس نے اپنے صبر آزما تعلیمی کیریئر کے دوران یہ ثابت کیا ہے کہ معذوری عزم کے سامنے کوئی رکاوٹ نہیں بن سکتی۔
آیۃ مسعود نے وزارت تعلیم کی طرف سے ملنےوالی تعلیمی سہولیات پر محکمے کا شکریہ ادا کیا اور توقع ظاہر کی کہ حکومت اسی طرح دوسرے معذور بچوں کی کفالت کے حوالے سے بھی اپنی ذمہ داریوں سے کما حقہ عہدہ برآ ہو گی۔