اسرائیلی اخبارات نے دعویٰ کیا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ایک خفیہ سمجھوتہ کیا ہے جس کے تحت فلسطینی محکمہ اسیران کو ختم کیا جا رہا ہے۔ اس سمجھوتے کا مقصد فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کےدرمیان مذاکرات کی بحالی کے لیے فضا سازگار بنانا ہے۔
اسرائیل کے عبرانی اخبار’معاریو‘ نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ فلسطینی صدر عباس نے امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں میں انہیں یقین دلایا تھا کہ وہ اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں کے ترجمان محکمہ اسیران اور وزارت اسیران کو مدغم کردیں گے۔
اخباری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صدرعباس کی جانب سے یہ یقین دہانی اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان براہ راست مذاکرات کی بحالی کے لیے خیرسگالی اقدامات کے بعد تناظر میں کی گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق امریکی صدر نے فلسطینی اتھارٹی پر زور دیا تھا کہ وہ اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں کی حمایت سے دست بردار ہوں اور اسرائیل کے ساتھ براہ راست بات چیت شروع کریں۔
اخباری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صدر عباس کی ہدایت کے بعد وزیراعظم رامی الحمد اللہ نے وزارت اسیران اور محکمہ امور اسیران کو باہم مدغم کرنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
خیال رہے کہ فلسطینی صدر نے سنہ 2014ء کو فلسطینی وزارت اسیران ختم کرنے کا اعلان کیا تھا مگر عوامی دباؤ کے بعد وہ اس پرعمل درآمد نہیں کرسکے۔
حال ہی میں فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے فلسطینی اسیران کے اہل خانہ کو دی جانے والی مالی امداد بند کردی گئی تھی۔ اسیران کے اہل خانہ کو دی جانے والی امداد کی بندش بھی اسیران کے حقوق سے دست برداری کی پالیسی کا حصہ بتائی جاتی ہے۔