پنج شنبه 01/می/2025

فلسطینی بچوں سے ہمدردی ’ایلینا‘ کے قبول اسلام کا موجب!

ہفتہ 10-جون-2017

رومانیہ سے تعلق رکھنے والی ایک سماجی کارکن خاتون کو فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی میں سنہ 2014ء پر مسلط کی گئی اسرائیلی جنگ نے زندگی میں انقلاب لانے کا موقع فراہم کیا۔

ایلینا ایک سماجی کارکن ہیں اور انہوں نے سنہ 2014ء کو غزہ پراسرائیلی جارحیت سے متاثرہ بچوں کی مدد کے لیے فلسطین کا سفر کیا۔ غزہ آنے کے بعد اس کی زندگی بدل گئی۔ وہ نہ صرف فلسطینی ہو کررہ گئی بلکہ اس نے اسلام قبول کرنے کے بعد ایک فلسطینی شہری سے شادی کی۔ مشرف بہ اسلام ہونے کے بعد ایلینا کا یہ پہلا ماہ صیام ہے۔

مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق 28 سالہ رومانوی نژاد ایلینا اعلیٰ تعلیم کے لیے رومایہ سے اٹلی چلی گئیں جہاں انہوں فوج داری قانون میں ماسٹر ڈگری حاصل کی۔ اٹلی میں قیام کے دوران اس کا تعارف ایک مسلمان فیملی کے ساتھ پڑا جن سے اسے قضیہ فلسطین کے بارے میں بھی آگاہی حاصل ہوئی۔ وہاں سے وہ ایک سرگرم سماجی کارکن کے طور پرابھریں اور تہیہ کیا کہ وہ فلسطین پہنچ کر اسرائیلی جارحیت سے متاثرہ بچوں کی مدد کرنا ہے۔

فلسطین آنے کے بعد وہ غزہ کی پٹی کے وسطی شہر دیر البلح میں ٹھہریں۔ یہاں اس کے آنے کا پہلا مقصد جنگ سے زخمی بچوں کی بہبود اور ان کے علاج معالجے اور ان کی بنیادی ضروریات میں ان کی مدد کرنا تھا۔ دیر البلح میں دوران قیام اس کا تعارف 33 سالہ محمود البحیصی کے ساتھ ہوا۔ البحیصی سے ایلینا کا رابطہ انٹرنیٹ کے ذریعے ہوا۔ اتفاق سے البحیصی بھی ایک سماجی کارکن ہیں۔ دونوں نے ایک دوسرے تعارف کے بعد ملاقات کی۔ یہ ملاقات ان کی زندگی کا فیصلہ کن موڑ ثابت ہوئی جو ایلینا کے قبول اسلام اور البحیصی سے شادی پر منتج ہوئی۔

غزہ کے بچوں کی معاونت

مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے ‘ایلینا‘ نے کہا کہ سنہ 2014ء کی غزہ جنگ کے دوران میں نے فلسطینی بچوں کی حالت زار دیکھی تو بہت دکھ ہوا۔ میں نے فلسطینی زخمی بچوں کے علاج کے لیے چندہ جمع کرنے کی مہم شروع کی اور اٹلی کے مختلف شہروں میں چندہ بکس رکھوائے۔

اس کا کہنا ہے کہ محمود البحیصی سے میرا تعارف ہوچکا تھا اور میں اسے ملنے فلسطین آنا چاہتی تھی۔ اس سے بھی زیادہ مجھے غزہ کے زخمی بچوں کی پکار اپنی طرف بلا رہی ہتھی۔ کشکش کی دیگروجوہات کے ساتھ بحیرہ روم کا موسم بھی ایک سبب تھا۔

محمود البحیصی پیشے کے اعتبار سے ایک آرکیٹکچر آرٹیسٹ ہیں اور وہ دیواروں کی سجاوٹ کے لیے خصوصی ڈیزائن کے پتھر تیار کرتے ہیں۔ وہ مصر میں بھی کام کرتے رہے ہیں۔ مگرمصرمیں عرب بہاریہ کے آغاز کے وقت وہ بھی غزہ لوٹ آئے تھے۔

قانون زندگی

ایلینا کا کہنا ہے کہ اس نے خوبصورت عربی رسم الخط میں لکھا قرآن پاک کا ایک نسخہ حاصل کیا۔ پھر مساجد کے دوروں کے دوران اللہ کےگھروں کےخوبصورت فن تعمیر نے اسے اسلام کے بارے میں گہرے مطالعے کا موقع فراہم کیا۔

البحیصی کے گھر کے مہمان خانے میں البحیصی کو فلسطینی لباس میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اس نے اپنا سر فلسطین کی روایتی خواتین کی طرح ڈھانپ رکھا ہے۔ اس کاکہنا ہے کہ فلسطین اور رومانیہ کے کلچر اور تہذیب وثقافت میں کوئی زیادہ فرق نہیں۔

اس کاکہناہے کہ میں نے اسلام کا مطالعہ کیا تو پتا چلا کہ یہ تو ایک خالص دین ہے جس میں کوئی تحریف نہیں کی گئی۔ میں نے اٹلی میں 2014ء میں قرآن پاک کی تلاوت شروع کی۔ قرآن پڑھنے میں میری مدد ایک ایشیائی مسلمان خاندان نے کی۔ میں چونکہ قانون کی طالبہ تھی، اس لیے میں نے قرآن پاک کا قانونی پہلو سے باریکی سے مطالعہ کیا اور میں اس نتیجےپر پہنچی کہ قرآن تو سائنس اور زندگی کے قانون کی کتاب ہے اور اس میں سب کچھ ہے۔

ماہ صیام کی آمد سےچند روز قبل ایلینا نے اپنے شوہر محمود البیحصی سے پوچھا کہ آیا وہ روزہ رکھ سکتی ہے؟ اس کے بعد اس نے پہلا روزہ رکھا۔ باقی دن اچھا گذرا مگر آخری دو گھنٹوں میں سردرد اور بہت زیادہ پیاس محسوس ہوئی۔

شوہر محمود البحیصی کا کہنا ہے کہ میں نے ایلینا کو بتایا کہ اللہ نے روزے میں ایک حکمت رکھی ہے۔ اس نے اپنی مرضی سے انٹرنیٹ پر قرآن اور رمضان کے بارے میں مزید معلومات جمع کیں۔ جب چوتھے روزے کو وہ بیمار ہوئیں تو میں نے اسے بتایا کہ بیماری میں روزہ افطار کرنے کی رخصت ہے۔ وہ روزے کی حکمت سمجھ گئی۔ اب ہم سب ایک خوش وخرم خاندان کی طرح زندگی گذار رہے ہیں۔

غزہ کی طرف ھجرت

فلسطینی شہری محمود البحیصی کے ساتھ شادی کے بعد پہلے تو ایلینا نے اپنے خاندان کو بتایا کہ وہ [البحیصی] بھی اٹلی آئے گا اور ہم یہاں ہی زندگی گذاریں گے۔ مگر دس روز کے بعد میں غزہ پہنچ چکی تھی۔ میں نے اہل خانہ کو بتایا کہ اب میں غزہ ہی میں رہوں گی۔ اس پروہ سب حیران ہوگئے۔

ایک سوال کے جواب میں ایلینا نے بتایا کہ میرےغزہ کی پٹی میں قیام پر میرے اہل خانہ بہت خوف زدہ ہوئے۔ درحقیقت  اہل خانہ کئی ماہ قبل اس وقت ہل کر رہ گئے تھے جب میں نے انہیں غزہ کے ایک فلسطینی نوجوان سے شادی کے فیصلے بارے بتایا۔ آج مجھے فلسطینی پناہ گزین کارڈ مل چکا ہے اور میں فلسطین اور غزہ میں ایک پناہ گزین کے طور پر رہنے پر فخر کرتی ہوں۔

مختصر لنک:

کاپی