اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے بتایا ہے کی حکومت فلسطینی اسیران کے اہل خانہ کی مالی معاونت کرنے پر فلسطینی اتھارٹی کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی تیاری کررہی ہے۔ اس مقصد کے لیے پارلیمنٹ میں ایک نیا قانونی بل پیش کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کو دی جانے والی رقوم کا ایک وافر حصہ اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں کے اہل خانہ کو دیا جاتا ہے۔ لہٰذا فلسطینی اتھارٹی کو ٹیکسوں کی مد میں ادا کی جانے والی رقوم بند کی جائیں۔
عبرانی زبان میں نشرہونے والے ٹی وی چینل 7 کی رپورٹ کے مطابق کابینہ کی آئینی کمیٹی آئندہ اتوار کو ہونے والے اجلاس میں فلسطینی اتھارٹی کے قانون تعاقب کے ایک بل پرغور کرے گی۔ مجوزہ مسودہ قانون فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے اسیران کے اہل خانہ کو مالی معاونت روکنے کا ذریعہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی حکومت فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے اسیران اور شہداء کے لواحقین کی مالی امداد کو ’اوسلو‘ معاہدے کی خلاف ورزی قرار دینے کے لیے کوشاں ہے۔
ٹی وی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی کنیسٹ کے کئی سرکردہ ارکان نے یہ مسودہ قانون تیار کیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں کے اہل خانہ اور صہیونی فوج، آباد کاروں اور ریاستی تنصیبات پرحملے کرنے والے حملوں کے دوران مارے جانے والے فلسطینیوں کے خاندانوں کو مالی مدد فراہم کررہ ہے۔ لہٰذا فلسطینی اتھارٹی کو دی جانے والی رقوم میں کٹوتی کی جائے۔
مجوزہ مسودہ قانون میں کہا گیا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی ہرسال اسیران اور شہداء کے خاندانوں کو ایک ارب شیکل یعنی 20 کروڑ 80 لاکھ ڈالر کی رقم فراہم کرتی ہے۔
مسودہ قانون میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کی طرف سے فلسطینی اتھارٹی کو ملنے والی امداد ان فلسطینی قیدیوں کے اہل خانہ کو بھی دی جاتی ہے جو اسرائیلی فوج پر حملوں اور دیگر سنگین نوعیت کے مقدمات میں جیلوں میں قید ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 2002ء کے بعد 66 یہودیوں کے قتل میں عمر قید کی سزا کا سامنا کرنے والے درجنوں فلسطینی قیدیوں کے اہل خانہ کو 7 لاکھ امریکی ڈالرکے مساوی رقم تقسیم کی گئی ہے۔