’دیوار براق‘ جسے یہودی اپنی مذہبی اصطلاح میں ’دیوار گریہ‘ کا نام دیتے ہیں اس وقت ایک بار پھرفلسطین اور عالمی ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکزہے۔ چند روز قبل اسرائیل کابینہ کا تاریخ میں پہلی بار اجلاس ’مقام براق‘ کے صحن میں منعقد ہوا۔ اجلاس کی صدارت شدت پسند اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو نے کی۔ انہوں نے اس اجلاس میں بیت المقدس میں نام نہاد ترقیاتی پروگراموں کے لیے کروڑوں ڈالر کا بجٹ منظور کیا۔ انہوں نے دیوار براق کو یہودیوں کا مذہبی مقام قرار دیا اور کہا کہ وہ اس مقدس مقام سے کسی صورت میں دست بردار نہیں ہوسکتے۔ حالانکہ اقوام متحدہ کے سائنس وثقافت کے ادارے ‘یونیسکو‘ نے بھی ’دیوار براق‘ کو فلسطینیوں اور مسلمانوں کی مذہبی ملکیت قرار دیا ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ یہودی اور صہیونی تو دیوار براق کی تاریخی اور مذہبی شناخت کومسخ کرنے کے لیے توپہلے سے کوشاں ہیں مگر اب اس سازش میں کچھ ایسے چہرے بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں جن کا فلسطین اور مسجد اقصیٰ کی پنجہ یہود سے آزادی کے لیے سرگرم تحریک فتح سے ہے۔
تاریخی اعتبار سے دیوار براق بیت المقدس کے معالم میں شمار کی جاتی ہے۔ یہ دیوار مسجد اقصیٰ کے مغرب کی سمت میں واقع ہے۔ یوں مسجد اقصیٰ کی مغربی سمت پھیلی اس دیوارنے قبلہ اول کو اپنے گھیرے میں لے رکھا جو جنوب میں باب المغاربہ اور شمال میں التنکزیہ اسکول تک پھیلی ہوئی ہے۔
مذہبی تقدس
دیوار براق کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے واقعہ معراج اور معراج شریف کے معجزے کے ساتھ بھی مربوط کیا جاتا ہے۔ واقعہ الاسراء اور المعراج کی نسبت سے یہ مقام مقدس جگہ کا درجہ رکھتا ہے۔ روایات میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی شب دیوار براق سے سدرۃ المنتہیٰ کا سفر شروع کیا۔
جب مسلمانوں نے بیت المقدس پہلی بار فتح کیا تو فتح بیت المقدس ہی سے دیوار براق کو عالم اسلام کا وقف مقام قرار دیا گیا۔ یہودیوں کا دعویٰ ہےکہ اس میں حضرت سلیمان علیہ السلام کےدور کا ایک پتھر بھی موجود ہے۔
یہودی اسے دیوار گریہ کا نام دیتے ہیں اور یہاں پر نوحے پڑھتے، آہ بکاء کرتے، روتے، چیختے چلاتے اور مذہبی رسومات ادا کرتے ہیں۔
دیوار براق کا مسلمانوں سے تعلق
فلسطینی علماء کی سپریم کونسل کے چیئرمین اور مسجد اقصیٰ کے خطیب الشیخ عکرمہ صبری کا کہنا ہےکہ ’ہم بہ حیثیت مسلمان دیوار براق پر اپنے حق ملکیت کا بجا طور پردعویٰ کرتے ہیں۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ دیوار براق مسجد اقصیٰ سے الگ کوئی مقام نہیں بلکہ قبلہ اول کا جزو لا ینفک ہے۔
الشیخ صبری کا کہنا ہے کہ دیوار براق کے حق ملکیت سےدست برداری اور اس میں کسی تفریک کی گنجائش نہیں۔
بیت المقدس کے باشندوں کا کہنا ہے کہ دیوار براق کے پاس سے گذرنے والی راہ داری شاہراہ عام نہیں تھی۔ یہاں سے صرف المغاربہ قصبے کے باشندوں کوگذرنے کے لیے ایک پکڈنڈی کے ذریعے گذرنے کی اجازت تھی۔ المغاربہ کالونی کے فلسطینی مسجد اقصیٰ میں آمد و رفت کے لیے اس راستے کا استعمال کرتے تھے۔ مصر کے گورنر ابراہیم پاشا نے1840ء میں یہودیوں کے ساتھ رواداری کے لیے اس راستے کے استعمال کی اجازت دی۔ انہیں صرف راستے سے آنے جانے کی اجازت تھی،انہیں یہاں پر عبادت کی اجازت نہیں دی گئی۔
یہودیانے کی سازشیں
فلسطین میں یہودیوں کے قومی وطن کے اعلان کے لیے تاریخ کے بدنام زمانہ ’اعلان بالفور‘ جسے برطانیہ نے 1917ء کو منظور کیا کے بعد یہودیوں کو دیوار براق تک رسائی کی اجازت دی گئی۔ یہاں پرکوئی ’یہودی ہیکل‘ نہیں۔ مسلمانوں کے دورمیں یہاں یہودیوں کو صرف آمد ورفت کی اجازت تھی۔ یہودیوں نے آہستہ آہستہ یہاں قدم جمانے شروع کیے اور ہیکل سلیمانی کے کھنڈرات کا حصہ قرار دے کراگلے مرحلے میں اسے مقام عبادت قرار دے ڈالا۔ یہودی یہاں آتے اور گڑ گڑاتے، نام نہاد تلمودی تعلیمات کے مطابق مذہبی رسومات ادا کرتے اور دیوار براق کو یہودیانے کی سازشوں کو آگے بڑھاتے۔
تاریخی دستاویز سے معلوم ہوتا ہے کہ برطانوی استبداد کے دور میں اکتوبر 1928ء کو ’وائیٹ بک‘ میں پہلی بار صراحت کے ساتھ دیوار براق کو یہودیوں کی عبادت کی جگہ قرار دیا گیا۔ دیوار براق کے اطراف کے تمام مقامات کو مسجد اقصیٰ اور مسلمانوں ملکیت قرار دیے گئے۔
برطانوی استبداد ہی کے دور میں یہودیوں کی دیوار براق میں آمد ورفت میں غیرمعمولی اضافہ ہوا تو 23 اگست 1929ء’براق انقلاب‘ کے نام سے فلسطینی شہریوں نے دفاع مقام براق کے لیے تحریک شروع کی۔ اس تحریک کے نتیجے میں بڑی تعداد میں مسلمان اور یہودی دونوں مارے گئے۔
اگرچہ سنہ 1929ء کویہودیوں نے ’اقوام عالم‘ تنظیم [جو بعد میں اقوام متحدہ کے نام میں تبدیل ہوئی] کے سامنےتسلیم کیا کہ وہ دیوار براق پرملکیت کا دعویٰ نہیں مگر جب سنہ 1967ء کو اسرائیل نے بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ پر غاصبانہ تسلط جمایا تو اس تاریخی کی حقیقت مسخ کرنے کی سازشیں شروع ہوئیں۔
یہودی فوجیوں نے مسجد اقصیٰ کی مغربی دیوار اور المغاربہ کالونی کے درمیان کھڑی دیوار مسمار کردی۔ اس میں موجود مساجد، مدارس اور دیگر مقامات کو بھی ختم کردیا گیا۔ اگلے مرحلے میں دیوار براق کے اطراف میں فلسطینیوں کے مکانات کی مسماری کا آپریشن شروع کیا گیا۔ جب سے صہیونی ریاست نے دیوار براق پرقبضہ کیا ہےاب تک تین ہزار فلسطینیوں کو دیوار براق کے پڑوس سے نکالا جا چکا ہے۔ صہیونی فوج نے باب المغاربہ کی کلید بھی چھین لی ہے۔آج باب المغاربہ [مراکشی دروازہ‘ یہودی آباد کاروں کے قبلہ اول میں داخل ہونے کا مرکزی راستہ قرار دیا جاتا ہے۔ یہودی آباد کار اسی دروازے سے قبلہ اول پر دھاوے بولتے ہیں۔
دیوار براق کے خلاف عالمی سازش
فلسطینی تاریخی مقامات کے امور کے باہر اور عالمی قانون دان حنا عیسیٰ کا کہنا ہے کہ ایک یہودی تنظیم نے دیوار براق کا ایک ڈھانچہ بنا کر اس پر ملکیت کا پروپیگنڈہ جاری رکھا ہوا ہے۔ دیوار براق کا مجسم ڈھانچہ امریکی شہر نیوکارک میں ’بروکلین‘ کالونی میں قیام میوزیم میں رکھا گیا ہے۔ کچھ عرصہ قبلہ دیوار براق کے’اسٹرکچر‘ کا باضابطہ افتتاح کیا گیا تو اس تقریب میں اسرائیل کے ایک وزیر نے بھی شرکت کی تھی۔
اسرائیل کی فضائی کمپنی ’العال‘ نے بھی یہودی مسافروں کی توجہ کے لیے دیوار براق کو یہودیانے کی مہم میں شمولیت اختیار کر رکھی ہے۔ دیوار براق کا مجسم ڈھانچہ بروکلین میوزیم میں منتقل کرنے کے لیے ’العال‘ کی فضائی سروس کا استعمال کیا گیا۔
مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے حنا عیسی نے کہا کہ ’حباد آرگنائزیشن‘ نامی تنظیم کا ایک ذیلی دفتر نیویارک میں بھی قائم ہے۔ اس تنظیم نے بروکلین میوزیم میں ’اسرائیل ہاؤس‘ جامی ایک پلیٹ فارم بھی قائم کیا ہے جس میں تلمودی اور توراتی روایات کی ترویج کی کوشش کی جاتی ہے۔
دیوار براق کو یہودیانے کی عالمی سازشوں میں بعض ایسے عناصر بھی شامل ہیں جو خود کو فلسطینی لیڈر قرار دیتے ہیں۔ حال ہی میں تحریک فتح کی مرکزی کمیٹی کے ایک رکن جبریل الرجبو نے دیوار براق کواسرائیل کی ملکیت قرار دیا ور کہا کل اگر فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان کوئی سمجھوتہ طے پاتا ہے تو اس میں مسجد اقصیٰ کو فلسطین اور دیوار براق کو سرائیل کے زیرکنٹرول ہونا چاہیے۔